کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 327
قرار پاجائے۔ اسی طرح وحی کا ایک اسلوب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وقتی طور پر درپیش کسی مشکل کے حوالے سے نبی کو اللہ تعالیٰ یہ اِجازت دیدیں کہ وہ اس مشکل کے حوالے سے نصوص ِشرعیہ اور دینی مقاصد و عمومی مصالح کی روشنی میں اجتہاد کرکے کوئی بات بیان کرے اور اللہ کی طرف سے خاموشی وتصویب اسے وحی کی صورت دیدے۔ الغرض ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی إنْ ہُوَ إلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی﴾[النجم:۳،۴] میں صرف وحی کا صراحتاً نزول شامل نہیں ، بلکہ مذکورہ قسم کی وحی کی دیگر صورتیں بھی شامل ہیں ۔
’سبعۃ أحرف‘ کے ثبوت کے حوالے سے مشہور ’حدیث جبریل ومیکائیل‘ سے یہ بات واضح ہے کہ ’حروفِ سبعہ‘ ایک ہی موقع پر مختصر وقت میں اتر آئے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’حروف سبعہ‘ میں شامل مترادفات کو پڑھنے کی اِجازت ایک وقتی مشکل کے تحت دی گئی تھی، جسے بعد ازاں عرضۂ اخیرہ میں مشکل ختم ہونے پر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی روشنی میں منسوخ فرمادیا تھا۔ عصر حاضر میں عام ذہنیت یہی ہے کہ ان کی تعداد احادیث میں وارد شدہ محض چند کلمات مثلا ہلمَّ، تعالِ اور أقبل وغیرہ تک ہی محدود تھی، جبکہ تحقیق کے مطابق یہ کئی ہزاروں پر مشتمل تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بارے میں وحی کی اجازت بھی یوں تھی کہ جن چیزوں کی ادائیگی ابتداء بعض قبائل ِعرب کے لیے عدم استعمال کی وجہ سے مشکل تھی انہیں مخصوص مقامات میں ان کلمات سے ملتے جلتے کلمات یعنی مترادفات سے پڑھنے کی اجازت دیدی گئی ہو۔ ان کے بارے میں نزول کا معنی یہ سمجھ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دیدی تھی کہ جہاں کسی لفظ کی ادائیگی میں کسی کے لیے کوئی مشکل ہو، اسے اس کی لغت کے مطابق اس لفظ کے ہم معنی یا قریب المعنی لفظ سے کلمہ بدلنے کی رخصت دے دیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب آہستہ آہستہ متعدد قبائل سے متعلق وہ لوگ قرآنی لغت سے مانوس گئے تو مترادفات سے پڑھنے کی یہ اجازت بھی منسوخ کردی گئی۔
مترادفات کے بارے میں اس توجیہ کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ مترادفات کے مطابق پڑھنے کی اجازت ایک وقتی مجبوری کے تحت بطور ِتدریج دی گئی تھی ، کیونکہ روایات کے مطالعہ سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ نیز ان کا اختلاف بھی حقیقی اختلاف کے قبیل سے ہوتا ہے، جس کے معانی پر انتہائی باریک قسم کے اثرات پڑتے ہیں ۔ البتہ ’سبعۃ أحرف‘ میں شامل دیگر قسم کے اختلافات کا یا تومعانی پر کوئی اثر نہیں ہوتا، جیسے متنوع لہجوں کا اختلاف(یعنی قراء کی اصطلاح میں قراءات کا اصولی اختلاف)، یا اثر تو ہوتا ہے لیکن وہ توضیح ِمعانی کے قبیل سے تعلق رکھتا ہے، جیسے اسالیب ِبلاغت کا اختلاف(یعنی قراء کی اصطلاح میں قراءات کا فرشی اختلاف)۔
مترادفات سے متعلق ہماری اس توجیہ کو یہ بات بھی تقویت دیتی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وغیرہ کے زمانہ میں عام معروف اندازے کے بالمقابل ان مترادفات کی تعداد کئی ہزاروں پرمشتمل تھی۔ ان کے حوالے سے متعدد معروف کتب قراء ات، خصوصا کتاب المصاحف از ابن ابی داؤد رحمہ اللہ وغیرہ سے مستشرقین میں سے صرف ایک شخص آرتھرجیفری نے جو ایک انتہائی ناقص اور محدود جائزہ پیش کیا ہے، صرف اس میں ان کی تعداد ۶۰۰۰ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ان مترادفات کا حقیقی جائزہ اُن مصاحف کی روشنی میں لیا جانا ممکن ہوتا، جوکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ختم کر دیے تھے تو مترادفات کے قبیل کے یہ اختلافات مذکورہ تعداد سے کئی گنا بڑھ کر ہوتے۔ ان