کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 326
سوال نمبر۲۴: کیا ’سبعۃ أحرف‘ میں موجود ہر لغت کا صراحتاً نزول ہوا تھا یا اس نزول کی نوعیت میں کچھ تفصیل تھی؟ جواب: جب یہ بات متعین ہوگئی ہے کہ ’حروفِ سبعہ‘ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا وطلب پر اللہ کی طرف سے امت کے لیے بطور اِجازت نازل کیے گئے تھے، تو اس کے بعد مذکورہ سوال کی اب کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے؟ وحی اور اس کے نزول کا تعلق امور ِغیبیہ سے ہے۔ اب خود وحی یا اس کے نزول کی نوعیت متعدد دینی امور میں عموما اور ’حروف سبعہ‘ کے ضمن میں خصوصا کیا تھی؟ اس قسم کے سوالات کی کوئی دینی ضرورت نہیں ۔ ہمارے لیے محض اتنا کافی ہے کہ وحی کے صورت میں جو دین ہمیں ملا ہے اس میں تعددِ قراءات کا مسئلہ موجود ہے اور ہم اس پر اپنے عقیدے کی رو سے ایمان بھی لاتے ہیں ، جبکہ اللہ کی فضل وکرم سے ہمیں اس سلسلہ میں قلبی اطمینان بھی حاصل ہے۔ اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق ایمان لانے کے لیے وحی کا عقلی طورپر سمجھ آنا ضروری نہیں ، البتہ اضافی اعتبار سے توجیہ کی جاسکتی ہے، لیکن وہ محض انسانی کد وکاوش ہی ہوتی ہے، منزل من اللہ نہیں ۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ حقیقت میں بھی معاملہ یوں ہی ہوگا، جیساکہ توجیہ کرنے والے نے پیش کیا ہے، ضروری نہیں ، الا کہ اس توجیہ کا ذکر نصوص شرعیہ میں ہو۔ ہم بھی ان پہلوؤں کی رعائت کے ساتھ معاملہ کی نوعیت کے بارے میں نصوص کی روشنی میں کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں ، کیونکہ یہ بحث ایسی ہے جس پر بعد ازاں امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ ، امام طحاوی رحمہ اللہ اور ان کے ہم نوا بے شمار اصحاب علم کے ’سبعۃ أحرف‘ سے متعلقہ بعض نظریات کی بنیاد ہے۔ اسی بنا پر باوجود یکہ میں اس مشکل اور دقیق بحث میں داخل نہیں ہونا چاہتا تھا، لیکن اس موضوع کو کچھ کھولتے ہیں ۔ جس طرح یہ نظریہ صحیح نہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘ کا نزول اللہ کی طرف سے نہیں ہوا، بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے انہیں جاری کردیا تھا، اسی طرح اس بات پر زور دینا کہ’حروف ِسبعہ‘ کے نزول کا معنی یہ ہے کہ ان کا ہر ہر جزء آسمانوں سے باقاعدہ صراحتاً اترا ہے، متعین نہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ تلاوت قرآن کے ضمن میں ’سبعۃ أحرف‘ میں شامل وہ مترادفات، جو کہ عرضۂ اَخیرہ میں بالاتفاق منسوخ کردئیے گئے تھے، کے حوالے سے یہ اصرار کہ یہ باقاعدہ یوں نازل ہوئے کہ جس طرح قرآن مجید تیئس سالہ عرصہ میں آہستہ آہستہ اترا، متعین نہیں ، کیونکہ معاملہ کی نوعیت کے بارے میں اس قسم کی تصریح دین میں کہیں موجود نہیں۔ دین میں تو صرف یہ بات آئی ہے کہ متعدد اندازوں پر قرآن کو پڑھنے کی اجازت اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے، لیکن نزول کی نوعیت کیا تھی؟ یہ کہیں واضح نہیں ۔ اسی لیے ہم نے کہا کہ اس بحث کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں ، لیکن اس نوعیت کے بارے میں چونکہ بعض متقدمین اہل علم نے بحث چھیڑ دی ہے، چنانچہ ہم بھی بحث کر رہے ہیں ۔ اللہ کی ہدایت، جو بصورت وحی انبیاء پر اترتی ہے، اس کے کئی ایک طریقے ہیں ، جو محتاج بیان نہیں ، البتہ اس ضمن میں ایک بات متعین ہے کہ رسول کی بات امت کے حق میں اپنی طرف سے نہیں ہوتی بلکہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے،کیونکہ رسول کا کام پیغام رسانی ہی کا ہے۔ وحی کے معنی ’خفیہ طریقے سے سریع الہام‘ کے ہیں ۔ اب اس مفہوم میں نزول کی کئی صورتیں داخل ہوسکتی ہیں ۔ وحی کے آنے کی نوعیت صرف یہی نہیں ہوتی کہ فرشتہ آسمانوں سے ہی ایک شے کو باقاعدہ لے کر اترے،بلکہ یہ صورت بھی وحی ہی میں شامل ہے کہ ایک شے آپ کے سامنے یا آپ کے زمانہ میں کی جائے اور اس کا رد نازل نہ ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی’تقریر‘ اور اللہ تعالیٰ کے ’استصواب‘ سے وہ وحی