کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 325
میں قرآن کا سات حروف کے ہمراہ نازل ہونے کا ذکر ہونا،یہ سب کچھ بتاتا ہے کہ قراءات کا یہ تمام اختلاف بنیادی طور پرآسمانوں سے نیچے اترا ہے ، کیونکہ لغت میں نزول کا یہی معنی لکھا ہے کہ شے کا اوپر سے نیچے اترنا۔ ثابت ہوا کہ معاملہ یہ نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے ان کو جائز قرار دیااور اللہ کے تصویب کے ساتھ ان کوشریعت کامقام ملا۔ الغرض جب یہ مقدمہ متعین ہوگیاتو اس حوالے سے یہ سوال کرنا بنیادی طور پر درست نہیں رہتا کہ قراءات کی اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے دی تھی اورجب یہ مشکل ختم ہوگئی تو پھر اس اجازت کو بعد از اں حضرت عثمان نے صحابہ سمیت یا بالفاظ دیگر امت نے ختم(منسوخ یا موقوف) کردیا۔ یہ بات اس لیے غلط ہے کہ ان قراءات کی اجازت وحی سے ملی تھی، وحی کا ذریعہ صراحتاً اللہ کی طرف سے نزول کاہو یا وحی کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد اور اس پر اللہ کی تصویب کے قبیل سے ہو، ہر دو صورت میں اس گنجائش کوختم کرنے کے لیے وحی ہی سے نسخ ثابت کرنا ضروری ہے اور اگر وحی سے اس کانسخ ثابت نہ کیاجاسکے تو کسی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جیسے ہمارے ہاں مصالح مرسلہ اور سد الذرائع کی مباحث چلتی ہیں اور حالات کے تحت اگر پیش نظر وقتی وعارضی مشاکل و مصالح ختم ہوجائیں تو ہم ان اجتہادی آراء کو ختم کردیتے ہیں یا نئے حالات کے مطابق بدل دیتے ہیں ، تو دین و شریعت کی مباحث میں بھی اسی طرح کا معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا تھا۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے الإحکام فی أصول الأحکام اور الفصل فی المِلَل والاھواء والنَّحل میں اس قسم کے عقیدے کو شدید ترین گمراہی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے قطعا ایسا نہیں کیا، بلکہ اگر وہ یوں کرتے تو اس عمل سے ملت اسلامیہ سے خارج ہوجاتے۔[الاحکام:۱/۵۶۵] اگر اس معاملے کو کسی اصول کے طور پر تسلیم کرلیا جائے تو دین حنیف کے بے شمار وہ احکامات، جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کی مشاکل کو سامنے رکھتے ہوئے رخصتوں کے ضمن میں پیش کیے ہیں ، ان کے بارے میں ملحدین کویہ کہنے کا موقعہ مل جائے گا کہ جب وہ مشاکل ومصالح ختم ہوجائیں یاحالات کا پس منظر بدل جائے تو دین کے اس قسم کے اَحکامات کو اجماعی یا انفرادی اجتہاد سے ختم کیا جاسکتاہے۔ ایسا عقیدہ رکھنا اللہ کے علم وحکمت کے اوپر صریح اعتراض اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ختم نبوت کے واضح انکار کے مترادف ہے۔ منکرین حدیث نے اسی مکروفریب سے قرآن میں خصوصا اور حدیثوں میں عموما وارد شدہ بے شمار جزئی احکامات کا اپنے تئیں انکار یا اجتہاد کے نام پر نسخ کرڈالا ہے، جیسے قتال کا انکار، کتاب وسنت میں وارد شدہ حدود وتعزیرات کا انکار، حجاب کا انکار، اسبال ِازار کا جواز، ڈارھی کا انکار، تصویر اور بت سازی کا جواز اور دیگر وہ کچھ جس سے پورے دین اسلام کا نقشہ الٹ کر رہ گیا ہے اور ایک نئے سیکولر اور لبرل اسلام کی تصویر سامنے آرہی ہے۔میں اس ضمن میں قرآن مجید میں وارد شدہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد پیش کرنا ہی بیان کے لیے کافی سمجھتا ہوں : ﴿لٰکِنِ اللّٰہ یَشْہَدُ بِمَا أنْزِلَ اِلَیْکَ أنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ وَالمَلٰـئِکَۃُ یَشْہَدُوْنَ وَکَفیٰ بِاللّٰہِ شَہِیْدًا ﴾[النساء:۱۶۶] نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ کسی شے کو ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو کسی ذات، تمام جن وانس حتی کہ تمام فرشتوں تک کی حاجت نہیں ، چہ جائیکہ ایک شے کو اللہ بطور اپنے حکم کے پیش کردیں اور سمجھا جائے کہ اللہ کے حکم کو پوری امت مل کر ختم کرسکتی ہے۔