کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 324
نزول وحی میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا عزل کرنا اور قرآن مجید کا نازل ہونا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کااس پرخاموش رہنا یہ خود ایک تقریری حدیث کی بنیاد ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس نوع کو اپنی جامع صحیح کے کتاب الاعتصام میں باقاعدہ ایک باب قائم کرکے واضح کیا ہے۔ اس بات کو ایک اور انداز سے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی سے شرعی حکم کے قرار(تقریر) پاجانے کی اصل توجیہہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سکوت کا معنی یہ بنتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اُس بات پر سکوت فرمایا ہے، جس پر آپ خاموش رہے ہیں ، گویاکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی تصدیق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرماتے ہیں ، جیساکہ روایات میں موجود ہے کہ بسا اوقات محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد فرمایا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اجتہاد کے حوالے سے جو کمزوری کاپہلو تھا اسے بیان فرمادیا، تو اگر اللہ تعالیٰ کمزوری کو بیان فرمادیں تو ایسی صورت میں وہ چیز شریعت نہیں بنتی، لیکن اگر واضح نہ فرمائیں تو ایسی صورت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی سے وہ شے شریعت قرار پاجاتی ہے، جسے اصطلاحا تقریر کہا جاتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کاکسی چیز پرخاموش رہ جانے سے جو شے ٹھیک قرار پاتی ہے اسے اِصطلاحا ’استصواب‘ کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اُصولیوں کا ایک قاعدہ ہے : ’’السکوت فی مَعْرِضِ البَیَانِ بیانٌ‘‘ ’’جب کسی جگہ بیان کی ضرورت ہو اور بیان کرنے والا ضرورت ِبیان ہونے کے باوجود بیان نہ کرے تو عدم ِبیان اس چیز کے شرعی جواز کی دلیل ہوتاہے۔‘‘ چنانچہ جن لوگوں کے ذہن میں یہ اشکال موجود ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءات قرآنیہ کو وحی کے بجائے اپنے اجتہاد سے جائز کردیاتھا، اگر یہ بات بھی کی جائے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت نتیجتاً وحی بن جاتی ہے۔ البتہ امر واقعہ اس کے بالکل خلاف ہے۔ روایات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءات کے اختلاف کو اپنے اجتہاد سے پیش نہیں فرمایا، بلکہ باقاعدہ اللہ تعالیٰ سے ان کے نزول کاتقاضا دعائیں کر کر کے فرمایاتھا، جیسا کہ جبریل اورمیکائیل علیہما السلام کے حوالے سے صحیح روایات میں موجود ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی غفار کے تالاب کے پاس دونوں تشریف لائے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بار بار تقاضا کرکے اللہ تعالیٰ سے اختلاف قراءات کو طلب فرماتے رہے، میکائیل مزید تقاضے کا مشورہ دیتے جاتے اور جبریل اللہ تعالیٰ کی طرف سے حروف لے کر آتے جاتے، حتیٰ کہ ہر طلب پر ایک ایک کر کے سات حرف کانزول ہوا ۔[صحیح ابن حبان:۷۳۴] اسی طرح دیگر تمام وہ روایات، جن میں قراءات کے سلسلہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے باہمی اختلاف کا ذکر ہے، ان میں موجود ہے کہ جب وہ اپنا اختلاف لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے توآپ ہر ایک کی قراءت سننے کے بعدیوں فرمایا: ’’ھکذا أُنزِلَتْ،ہکذا أنزلت‘‘۔[ صحیح البخاري:۵۰۴۱] خصوصا خود حدیث ’سبعۃ أحرف‘ کے الفاظ ’’أنزِلَ القرآنُ علی سبعۃِ أحرُفٍ‘‘میں غور کیا جائے تو سمجھ آتا ہے کہ پہلی روایت کے مطابق ایک حرف کاآسمان سے آنا، پھر دوسرے حرف کا آسمان سے اترنا اور پھر تیسرے حرف کاآسمان سے نازل ہونا، حتی کہ معاملہ کا سات حروف تک اسی نوعیت پر پہنچ جانا،اسی طرح دوسری قسم کی روایات میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے مابین مختلف اندازوں سے پڑھنے کے بارے میں ہر ایک کے حوالے سے آپ کا یوں تصدیق کرنا:’’ھکذا أنزلت، ہکذا أنزلت‘‘[صحیح البخاري:۵۰۴۱]اور حدیث ’حروف ِسبعہ‘