کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 323
پورا کیا جاتا ہے۔ فقہاء کے استنباطات و اجتہادی آراء کا شرعی نصوص واحکام سے بنیادی ترین فرق یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم النبیین ہیں ، اسی لیے آپ کی لائی ہوئی شریعت بھی ابدی ہے، جسے منسوخ یا موقوف کرکے اب نئی شریعت قیامت تک نہیں لائی جاسکتی، برابر ہے کہ وہ کسی نئے حکم کے وجود میں لانے کی صورت میں ہو یاشریعت میں پہلے سے موجود کسی حکم کو ختم کرنے کے کی شکل میں ، لہٰذا شریعت میں مذکور مصالح ورخصتیں بھی روز ِاول سے دائمی حیثیت ہی رکھتی ہیں ، جبکہ فقہاء کے ذکر کردہ مصالح کی حیثیت بہرحال یہ نہیں ہے۔
الغرض اجتہاد کے بنیادی مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ یہ شرع کے اندر ہوتا ہے، باہر نہیں اور یہ شرع کے نسخ کا نام نہیں ، بلکہ اس کا کام نئے تمدنی تقاضوں کے لیے شریعت کی توضیح وتشریح کرنا ہے، چنانچہ شرع میں جن مقاصد اور جزوی یا کلی مصالح کو سامنے رکھ شرعی احکام دیے گئے ہیں ، اب قیامت تک آنے والے انسانوں کے مصالح کا ایک خلاصہ سامنے رکھتے ہوئے ان شرعی احکام کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ابدی ہدایت پیش کردی ہے، جس میں قیامت تک تمام زمانوں اور لوگوں کی جمیع ضروریات اور طبعی وتمدنی تقاضوں کا لحاظ کرلیا گیا ہے۔یہ کہنا کہ اللہ علیم وخبیرنے جن مقاصد ومصالح کی رعائت کرکے اپنے علم وحکمت کی روشنی میں جو احکامات پیش کردئیے ہیں ، بعد کے زمانوں کے بعض مصالح کی ان میں رعائت نہیں کی گئی انتہائی خطرناک بات ہے۔ اس تناظر میں ہمارا کام بس یہی ہے کہ ہم اپنے مخصوص علاقائی اور وقتی تقاضوں کی رعائت میں شرع کی روشنی میں اپنے مسائل کا حل تلاش کریں ۔اس صورت میں جو فقہی واستنباطی راہنمائی سامنے آئی گی وہ بھی علاقائی اور وقتی ہی ہوگی، اسے ابدی اور کلی قرار دینا انتہائی غلط ہوگا۔ عالمگیریت اور ابدیت صرف شرعی احکامات کا خاصہ ہے، فقہی واجتہادی احکام کی یہ صفت نہیں ہے۔سی لیے علمائے اصول کے ہاں شرعی مصلحت کو ’حکمت‘ کہا جاتا ہے، جو رب حکیم کی صفت ِعلیم وخبیر کی روشن مثال ہوتی ہے، جبکہ انسانی مصلحت کو ’حکمت‘ کے بجائے ا’جتہادی مصلحت‘ کی متوازی اصطلاح سے بیان کیا جاتا ہے۔ شریعت کی اسی عالمگیریت اور جامعیت کو واضح کرنے کے لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے معارج الوصول فی بیان أنَّ أصولَ الدِّین وفروعَہ قد بیَّنہ الرّسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس کا مطالعہ اس ضمن میں انتہائی مفید ہوگا۔
مذکورہ تمہید ی باتوں کے بعد اب ہم آتے ہیں سوال کے جواب کی طرف تو میں واضح کرنا چاہوں گا کہ منکرین قراء ات، جن کی اپنی دینی بنیادیں مضبوط نہیں ، انہوں نے فقہی مصلحت کے انداز پر قراءات کی توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرجو قرآن نازل ہوا تھا، وہ تو بنیادی طور پر ایک ہی وجہ یا ایک ہی لہجہ کے ساتھ نازل ہوا تھا لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے متاخرین فقہاء کی طرح قرآن مجید کے اندر لوگوں کی مشکلات یامصلحت وحکمت کی پیش نظر کچھ چیزوں کی گنجائش اپنی طرف سے دے دی تھی۔ ہمارے نقطہ نظر کے مطابق یہ بات اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اگر یہ معاملہ ایسے بھی ہو، جیسے ذکر کیا جارہا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی بات قرآن یاسنت میں اپنے اجتہاد کی پیش نظر کہیں تو اہل سنت والجماعۃ کے عقیدے کے مطابق چونکہ اس کے اوپر وحی کی نگرانی ہوتی ہے،چنانچہ وہ چیز نتیجتاً وحی بن جاتی ہے، جیسے کہ کنَّا نعزِل والقرآن ینزل[صحیح مسلم:۱۴۴۰] کی مثال ہے۔ اب صحابہ رضی اللہ عنہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تو عزل نہیں کیا کرتے تھے، لیکن زمانہ