کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 322
متاخرین کی اصطلاح کے مطابق ’خبر واحد‘ بھی کہہ لیا جائے تو بھی نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ خبر متواتر کا ماحصل اور خلاصہ بھی ’علم قطعی‘ ہی ہے۔ اگر کوئی ایسی قراء ت، جو کہ خبر واحد سے ثابت ہو، لیکن اس کا ماحصل ’قطعیت‘ ہو تو ایسی روایت اپنے ثبوت میں خبر متواتر کے قریب یااس جیسے مضبوط ذریعہ ہی سے ثابت ہوتی ہے، چنانچہ ہم دونوں تعبیرات کے حوالے سے کوئی تحفظ نہیں رکھتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید کا ثبوت تواتر سے ہوا ہے تو ہم اس بات کو بھی غلط نہیں سمجھتے اور اگر کہا جائے کہ نہیں ! بلکہ قرآن کریم کے ثبوت کے لیے روایتی تواتر(تواتر الاسناد) ضروری نہیں بلکہ ’قطعی روایت‘ کافی ہے تو بھی کوئی حرج نہیں ۔ ہمیں اس قسم کے لفظی اختلاف پر کوئی حساسیت نہیں ۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ محققین محدثین کا تصور تواتر ہو یا عام محدثین کی خبر واحد، جو کہ علم قطعی پرمنتج ہو، دونوں میں اختلاف محض تعبیر کا ہے، جس کا حقیقت پرکوئی اثر نہیں پڑتا۔ سوال نمبر۲۳: بعض لوگوں کاخیال ہے کہ قراءات کی اجازت اوّلاً تھی، بعد میں منسوخ یا موقوف کردی گئی؟ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ جواب: بعض منکرین قراء ات، جوکہ ابتدائی دور کے لحاظ سے متنوع قراءات کو تسلیم کرتے ہیں ، کہتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں قرآن کریم کو مختلف اندازوں میں پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی، لیکن بعدازاں اس رخصت کو منسوخ کردیا گیا، کیونکہ جس غرض سے ان قراءات کو پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی وہ غرض پوری چکی تھی، چنانچہ ان قراءات کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کی رائے کے ساتھ منسوخ یا موقوف کردیا۔ اس نقطہ نظر کے حاملین کے ہاں بنیادی طور پریہ ذہنیت پائی جاتی ہے کہ شریعت کے وہ احکام، جو مصالح ومقاصد کے پیش نظر دیے گئے ہیں وہ وقتی ہوتے ہیں ،جنہیں مقاصد کے حصول کے بعد منسوخ یا موقوف کیا جاسکتا ہے۔ ان لوگوں کے ہاں عام طور احادیث میں مذکور احکامات اسی قبیل سے ہیں ۔ اس بات کی وضاحت یہ ہے کہ بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ شرع میں ذکر کردہ مصالح سے متعلق اَحکام صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی رعائت اور حالات کے اعتبار سے مشروع کیے گئے تھے، چنانچہ اُس دور کے حالات سے منسلک احکامات بنیادی طور پر شریعت سے خارج ہوتے ہیں ۔ شریعت میں مذکور مصالح،جنہیں اصطلاح اصولیین میں ’مصالح معتبرہ‘ کہتے ہیں ،سے متعلق احکام کے بارے میں ان لوگوں کے ذہن کی بنیاد ی غلطی یہ ہے کہ یہ ان شرعی مصالح کو فقہی واجتہادی مصالح، جنہیں اُصولیوں کی اصطلاح میں ’مصالح مرسلہ‘ کہتے ہیں ، کی طرح سمجھتے ہیں ، حالانکہ اہل سنت کے ہاں شرعی مصلحت دائمی وابدی ، جبکہ فقہی مصلحت وقتی وعارضی ہوتی ہے۔ علمائے اصول کے ہاں ’مصالح مرسلہ‘ کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ تمدن کی تبدیلی سے پیدہ شدہ نئے حالات میں فقہاء کرام بسا اوقات شریعت کی کسی نص کے انطباق میں شرعی مقاصد( شریعت کی بیان کردہ عمومی مصالح) کالحاظ رکھتے ہوئے معاملہ کی نوعیت اور مسئلہ کے ہمہ گیر پہلوؤں کی رعائت میں شریعت میں موجود اس واقعہ سے ملتے جلتے واقعات(نظائر)کے بارے میں وارد شرعی نصوص پر قیاس کرکے اجتہادو استنباط سے کچھ حدود و قیود کا اضافہ یا کمی کردیتے ہیں ۔ تمدن کے نئے تقاضوں سے جو انسانی ضروریات سامنے آتی ہیں ، مجتہد کے لیے شرعی مقاصد اور تعلیمات دین کی روشنی میں ان کی رعائت کرنا شارع کا مطلوب ہے، جسے ’اجتہاد‘ کے مبارک عمل سے