کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 321
عام علمائے محدثین کی تعریف ِتواتر کی رو سے ثابت ہوتا ہے اور بسا اَقات الخبر الواحد المحتف بالقرائن کے قبیل سے ہوتا ہے، جبکہ محققین محدثین کے ہاں اس دوسری صورت کو بھی نتیجہ کے اعتبارسے تواتر ہی سے تعبیر کیا جاتاہے۔ بہرحال آپ تواتر کی دونوں تعریفوں میں کوئی تعریف بھی لے لیں ، ثبوت ِقرآن میں تواتر کی مشروطیت یا عدم مشروطیت کے بارے میں قراء اور علماء کے مابین پایا جانے والا مذکورہ سارا اختلاف لفظی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض معاصر اہل علم،جوکہ ثبوت قرآن کے ضمن میں تواتر کی مشروطیت کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں ، وہ بھی موجودہ قراءات عشرہ کو ’تواتر حکمی‘ سے ضرور ثابت شدہ مانتے ہیں ۔ المختصر قراء کرام کے ہاں بالعموم یہ بات طے شدہ ہے کہ قرآن مجیدکا ثبوت الخبرالواحد المحتف بالقرائن کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اب آپ ا یسی خبر کو ’خبرمتواتر‘ کہیں یا ’خبرواحد‘ ، بہرحال قراء کے ہاں یہ مسئلہ متعین ہے کہ قرآن مجید کا ثبوت عام آئمہ حدیث کے ہاں طے کردہ چار شروط ِتواتر سے ہونا ضروری نہیں ہے،بلکہ قرآن مجیدکے ثبوت کے لیے ’علم قطعی‘ ضروری ہے۔ اب اس ’علم قطعی‘ کے حوالے سے آپ محققین محدثین کی تعبیر پیش کریں یا عام محدثین کی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس اختلاف کے حوالے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں یہ سارا اختلاف لفظی ہے، چنانچہ قراء کرام کے ہاں بس ایک بات کا تعین ہے کہ قرآن مجید کے ثبوت میں ’’ قطعی الثبوت‘ ذریعہ چاہیے، برابر ہے کہ وہ محققین کی تعریف ِتواتر کے نام سے سامنے آئے یا عام محدثین کی تعریف ِخبر واحد کا مصداق بن کر آئے۔ اس ضمن میں جو باتیں سامنے آتی ہیں اس سے بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ محدثین اور قراء کے ہاں تواتر کی تعریف میں فرق ہے۔ اسی ضمن میں یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ قراء کے مابین بھی ثبوت قرآن کے لیے تواتر کو بطور شرط ماننے میں اتفاق نہیں ، حالانکہ یہ سارا اختلاف مسئلہ کا گہرائی سے جائزہ نہ لینے کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئمہ قراءات بھی اس معاملہ میں الجھے ہیں ۔ امام الفن حافظ ابن جزری رحمہ اللہ ، جو علم قراءات و علم حدیث دونوں کے مسلمہ امام ہیں ، کبھی یہ کہتے ہیں کہ ثبوت قراءات کے لیے تواتر ضروری ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ تواتر کے بجائے اگرقراءت صحت سند سے ثابت ہوجائے اور وہ لغات عرب و رسم عثمانی کے موافق ہو، نیز اہل فن کے ہاں اسے قبولیت عامہ یعنی تلقّی بالقبول بھی حاصل ہو تو وہ ثابت قرار پائے گی۔ ہم کہتے ہیں کہ دوسری صورت وہی ہے جسے ماہرین علم المصطلح کے بیانات میں الخبر الواحد المحتف بالقرائن کہا جاتا ہے، جس کے بارے میں ان کا اتفاق ہے کہ وہ علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے۔ مذکورہ بحث کے ضمن میں یہ بات ضرور مد نظر رہنی چاہیے کہ’علم قطعی‘ یا ’تواتر‘ کے حصول کی کچھ صورتیں ایسی ہیں ، جو علم الحدیث میں نہیں پائی جاتیں ،بلکہ صرف علم القراءت میں موجود ہیں ، جیساکہ ثبوت ِقراءات میں ’تواتر ِطبقہ‘ کا معاملہ ہے، جس کے بارے میں اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ ثبوت میں قوت کے اعتبار سے ایسا تواتر ’تواتر اسنادی‘ سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔ سوال نمبر(۲۲): کیاقراء کے ہاں خبر واحد سے قرآن مجید ثابت ہوتا ہے؟ جواب: پیچھے وضاحت ہوچکی ہے کہ بنیادی چیز خبر واحد یا خبر متواتر نہیں ہے، بلکہ بنیادی شئے علم قطعی ہے۔ علم قطعی ہی وہ بنیادی شے ہے جو خبر متواتر کا ماحصل ہے اور اگر خبر واحد بھی علم قطعی کا فائدہ دے جائے تو ایسی روایت کو اگر