کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 319
سند کے اعتبارسے ثابت نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود چونکہ مسئلہ اجتہاد کے بارے میں دین کے اندر بے شمار دلائل موجود ہیں ، اسی وجہ سے اس حدیث کا خلاصہ دیگر احادیث کی تائید کی وجہ سے ثابت ہے۔ بالکل اسی طرح قرآن مجیدکا ایک ایک حرف اور ایک ایک آیت اور ایک ایک لفظ اس قسم کے تواترسے ثابت ہے۔ جیسے سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت ’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘ قراءات عشرہ کبری کے اَسّی طرق سے ثابت ہے۔ تمام کے تمام طرق میں میں بسم اللہ قدر مشترک کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔ یہی حال بعد کی آیات کا ہے۔ الرحمن اور پھر الرحیم اَسّی کے اَسّی طرق میں یوں ہی ثابت ہوا ہے۔ اس طرح سے ایک ایک لفظ، ایک ایک کلمہ کو قدرِمشترک کا تواتر حاصل ہوا ہے اور جن جگہوں پر دو یازائد قراءات ہیں ،وہاں اسی طرق کو تقسیم کرکے دیکھ لیا جائے۔ اگر دو قراءات ہیں تو چالیس چالیس کی نسبت سے اسی کوتقسیم کیاجاسکتا ہے اور اگر تین قراءات ہیں تواَسّی کو۲۶، ۲۶ کی نسبت سے تقریباً تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ اس پہلو سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کاایک ایک حرف اور ایک ایک شوشہ اپنے ثبوت کے اعتبار سے متواترۃ و ثابت ہے۔ سوال نمبر(۲۱): تواتر کی شروط سے کیا مراد ہے اور محدثین اورقراء کے ہاں تواتر میں کیافرق ہے؟ اسی طرح واضح فرمائیے کہ ثبوت ِقرآن کے سلسلہ میں شرطِ تواتر کے حوالے سے قراء اور عام علماء میں کوئی اختلاف ہے؟ جواب: سوال نمبر ۱۸ کے ضمن میں گذر چکا ہے کہ ثبوت ِقراءات کے لیے کن چیزوں کا ہونا ضروری ہے یا بالفاظ دیگر ثبوت ِقراءات کا ضابطہ کیا ہے؟اس ضمن میں ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ تواتر کی تعریف کے ضمن میں آئمہ حدیث و ماہرین ِعلم المصطح کے ہاں اِختلاف ہے۔ عام متاخرین اہل علم کے ہاں تواتر چار شروط پر مشتمل مجموعہ کا نام ہے، جوکہ یہ ہیں : ۱۔ مارواہ عَدَدٌ کثیرٌ یا ما رَوَاہُ جماعۃٌ یعنی جسے ایک کثیر تعداد یا بالفاظ دیگر ایک جماعت نقل کرے۔ ۲۔ یہ افراد اتنے ہوں کہ اس روایت میں جھوٹ کا احتمال ختم ہوجائے۔ ۳۔ اس خبر کا ذریعہ حس ہو۔ ۴۔ یہ صورت حال جمیع طبقات ِسند میں موجود رہے ۔ ان چاروں شرائط کو شروطِ تواترکے نام سے بیان کیا جاتاہے۔ ان چاروں شروط کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ان کا خلاصہ یہ سامنے آتا ہے کہ تیسری شرط وصف ِعمومی ہے جوکہ خبر واحد ہو یا متواتر دونوں میں مشترک ہے، جبکہ چوتھی شرط بھی کوئی امتیازی شرط نہیں ،کیونکہ وہ سند کی متعدد کڑیوں میں خصوصی معیار ِثبوت کے تسلسل کے لیے لگائی گئی ہے۔ اگر سند کی کڑیاں زیادہ نہ ہوتیں تو یہ شرط بھی نہ لگائی جاتی۔ باقی رہیں پہلی دو شرطیں ، تو یہ دونوں بظاہر دو محسوس ہوتی ہیں جبکہ حقیقتاً ایک ہی ہیں اور ایک دوسرے سے مربوط ہیں یعنی ما رواہ عدد کثیر یستحیل العادۃ تواطئہم علی الکذب یعنی وہ خبر جس کے ناقلین اس قدر ہوں ، کہ روایت وخبر میں جھوٹ کا احتمال ختم ہوجائے۔ حاصل یہ ہے کہ مذکورہ چاروں شرطوں میں اصل شے علم قطعی کا حصول ہے۔ بعض لوگوں نے اسی وجہ سے شرائط ِتواتر میں ’علم قطعی ‘کومستقلاً پانچویں شرط کے طور پر بھی پیش کیا ہے، جس کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ یہ بات شرط ثانی سے از خود مفہوم ہے۔