کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 314
ابی جہیم، ابی سعید الخدری، ابی طلحہ الانصاری، ابی ہریرۃ اور ابی ایوب رضی اللہ عنہم(۴۰)شامل ہیں اور جسے صحابہ کی اتنی بڑی تعداد نقل کرے اسے خبر متواتر کہا جاتا ہے جس کا انکار گمراہی ہے۔
قراءات القرآن کا انکار
آج ایک طبقہ جو حجیت حدیث کا منکر ہے وہ اپنے نظریات کو درس قرآن اور فہم قرآن کے نام پر فروغ دے رہا ہے اور قراءاتِ قرآن کے انکار کا مرتکب ہو رہا ہے اور یہ تاویل پیش کر رہا ہے کہ یہ سہولت تھی جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک محدود تھی، حالانکہ مصحف عثمانی کی ترتیب اور رسم خط ان کے افکار کی تردید کے لئے کافی ہے۔
جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا واقعہ نقل کیا ہے:
’’قال یوما وھو علی المنبر أذکر اللّٰہ رجلا سمع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال إن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف کلہا شاف وکاف لما قام،فقاموا حتی لم یحصوا فشہدوا بذلک فقال عثمان وأنا أشہد معہم‘‘ (۴۱)
’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک روز منبر پر کھڑے ہوکر فرمایا میں آپ لوگوں کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں ، جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ سنے ہوں ، إن القرآن أنزل....وہ کھڑے ہو جائیں ، اس پر صحابہ کی اتنی بڑی جماعت کھڑی ہوگئی جن کا شمار مشکل ہوگیا اور سب نے اس پر گواہی دی پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں بھی اس پر گواہ ہوں ۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہ نے صحابہ سے گواہی کیوں لی؟یہ عمل ثبوت ہے کہ اس زمانہ میں بھی کچھ لوگوں کو قراءت کے حوالہ سے شبہ پیدا ہوا ہوگا، لہٰذا لوگوں کی اور اپنی شہادت کے ذریعہ ہمیشہ کے لئے اس فتنہ کو فن کردیا۔
دراصل علم قراءت سماع کی بنیاد پر ہے ۔بعض نے متعدد قراءات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سماع کیا اور اپنے شاگردوں کو اس کی تعلیم دی یہاں تک کہ دیگر فنون کی طرح کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو فن قراءت کے لئے وقف کرلیا، جنہیں آئمہ قراءت تسلیم کیا گیا ہے۔
بعض مستشرقین جنہوں نے قرآن و علوم القرآن کو موضوع بحث بنایا ہے وہ اس باریک فرق کو نہ سمجھ سکے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ بعد کے ادوار میں تشکیل پانے والا علم ہے ان میں سے ایک نام گولڈز یہر کا ہے۔
وہ لکھتا ہے قرآن کریم کے متن پر نقطے اور اعراب نہیں تھے، اس لئے علم قراءت کے اختلافات وجود میں آگئے، لوگوں نے اپنی اپنی مرضی کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت شروع کردی تھی۔(۴۲)
حالانکہ صحابہ تو کجا کسی معمولی مسلمان سے بھی اس ہوائے نفس کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے، فن قراءت میں امام اسے ہی تسلیم کیا گیا ہے جس میں تین علامات ہوتی تھیں ۔
۱۔ ضبط کی صلاحیت
۲۔ امانت دار
۳۔ اس فن پر طویل زمانہ تک محنت کی ہو اور عمر کا ایک حصہ صرف کیا ہو
قراءات متواترہ سات تک شمار کی گئی ہیں ، باقی تین شاذ ہیں ، اہل علم کے ایک طبقہ کی رائے ہے، اختلاف قراءت مکہ میں نہیں تھی، جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہاں فقط قبیلہ قریش تھا، جب آپ مدینہ آئے تو یہاں مختلف قبائل سے واسطہ پڑا اور ان کے لہجے بھی جدا جدا تھے، غالباً یہی وجہ ہے جو بھی روایات اس حوالہ سے منقول ہیں وہ سب