کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 313
’’حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے ملاقات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے جبریل علیہ السلام میں ایسی امت کی جانب رسول بناکر بھیجا گیا ہوں ، جو امی ہے، اور اس میں بوڑھے، عمررسیدہ، غلام افراد بھی ہیں ، جو قرآن کریم کی تلاوت(ایک لہجہ) میں نہیں کرسکتے ہیں ، تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کو سات(قراءات )(لہجوں ) میں تلاوت کیا جاسکتا ہے۔‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش پر مختلف قراءات کی اجازت دی گئی اور خواہش کا سبب کمزوروں کے لئے آسانی ہے، اسی صحابی سے دوسری روایت میں مکمل تفصیل سامنے آتی ہے۔ عن أبی بن کعب رضی اللّٰہ عنہ أن النببی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان عند أضاء ۃ بنی غفار، فأتاہ جبریل علیہ السلام فقال: إن اللّٰہ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی حرف فقال: أسأل اللّٰہ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لا تطیق ذلک،ثم أتاہ الثانیۃ فقال: إن اللّٰہ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی حرفین فقال: أسأل اللّٰہ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لا تطیق ذلک ثم جاء ہ الثالثۃ فقال إن اللّٰہ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی ثلثۃ أحرف فقال: أسأل اللّٰہ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لا تطیق ذلک ثم جاء ہ الرابعۃ فقال إن اللّٰہ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی سبعۃ أحرف، فأیما حرف قرؤا علیہ فقد أصابوا (۳۶) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت طاقت نہیں رکھتی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف قراءات میں تلاوت قرآن کریم کی اجازت دے دی اور واضح فرمایا کہ جملہ قراءات میں قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے حق پر ہیں ۔ ظاہر ہے یہ اِجازت سب کے لئے ہے اور قیامت تک آنے والی اُمت کے افراد کے لئے ہے۔ عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أقرأنی جبریل علی حرف فراجعتہ فلم أزل أستنریدہ ویزیدنی حتی انتہی إلی سبعۃ أحرف(۳۷) ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، یہی وجہ ہے عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مختلف لہجوں میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور اختلاف کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رابطہ فرماتے تھے، جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے۔ انہوں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کی تلاوت کے لہجہ پر اعتراض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں سے جدا جدا لہجہ میں تلاوت سنی اور دونوں کے بارے میں فرمایا: کذلک أنزلت(۳۸) ’’یعنی دونوں قراءات درست ہیں ۔ ‘‘ اسی طرح ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت میں مختلف قراءات کے اختلاف کے بارے میں فحسن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم شأنہما ،کہہ کر دونوں کی تحسین فرمائی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عمل کی تحسین فرمائی، امت کا کوئی فرد اس کی تکذیب نہیں کرسکتا۔ مختلف قراءت کے جواز پر بے شمار(۳۹) صحیح اَحادیث موجود ہیں ، جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں ۲۱/ صحابہ سے یہ روایت منقول ہے ان میں : ابی بن کعب، انس، حذیفہ بن الیمان، زید بن ارقم، سمرۃ بن جندب، سلیمان بن صرد، ابن عباس، ابن مسعود، عبدالرحمن بن عوف ، عثمان بن عفان، عمر بن الخطاب ، عمرو بن ابی سلمہ، عمرو بن العاص، معاذ بن جبل، ہشام بن حکیم، ابی بکرۃ،