کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 311
مفہوم سبعۂ اَحرف اَحرف حرف کی جمع ہے، حرف لغت میں تین معنی میں مستعمل ہے، قرآن کریم میں کبھی حد، طرف اور جانب کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ (۲۰) کبھی انحراف کے معنی میں (۲۱)اور کبھی قدرت علی الفعل کے معنی میں ۔(۲۲)سبعۃ کے مفہوم میں بہت زیادہ اختلافات منقول ہیں ، چالیس سے زیادہ اَقوال ہیں ، بعض مستقل تصانیف اس پہلو پر تحریر کی گئی ہیں ۔ ٭ ایک رائے ہے قرآن کریم کا ہر کلمہ سات طرح سے پڑھا جاسکتا ہے۔(۲۳) ٭ دوسری رائے ہے سبعہ کا لفظ قرآن کریم میں کثرت کے اظہار کے لئے آیا ہے، کسی مخصوص عدد کے لئے نہیں ۔(۲۴) ٭ تیسری رائے ہے اس سے احکام سبعہ مراد ہیں ۔ ٭ چوتھی رائے ہے اس سے زجر و امر حلال و حرام اور محکم و متشابہ مراد ہے۔ ٭ پانچویں رائے ہے وعدہ وعید حلال و حرام مواعظ و امثال و احتجاج مراد ہے۔ ٭ چھٹی رائے ہے مراد سات لغات ہیں ، یعنی مختلف قبائل کی سات لغات۔ ٭ ساتویں رائے ہے اس سے عربوں کے سات لہجے مراد ہیں ۔ (۲۵) ٭ آٹھویں رائے ہے کہ سات مشہور قرآنی قراء تیں مراد ہیں ۔(۲۶) علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے تیس سال اس مسئلہ پر غور و فکر کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس سے مراد تمام قراء توں میں سات طرح کے اختلافات مراد ہیں اور یہ اختلاف (۱) یا تو حرکات کا ہے (۲) یا صرف معنی میں تبدیلی کا ہے (۳) یا حروف میں ایسی تبدیلی کا ہے جس سے معنی میں تبدیلی نہ آئے (۴)یا حروف میں ایسی تبدیلی کا ہے جس سے معنی میں تبدیلی آئے۔ (۵) یا معنی اور صورت دونوں میں تبدیلی آئے (۶)یا تقدیم و تاخیر کی تبدیلی (۷) یا الفاظ میں کمی و بیشی ہو جیسےاوصٰی اور وصّٰیم(۲۷) علامہ جزری رحمہ اللہ کی اس رائے پر اکثر اہل علم کا اتفاق ہے۔ لیکن ایک اور نکتہ پر اختلاف ہے کہ سات لہجوں میں تلاوت کی اِجازت ہمیشہ کے لئے تھی یا فقط عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک کے لئے تھی، بعض کی رائے ہے جس میں امام طبری رحمہ اللہ بھی شامل ہیں کہ مصحفِ عثمانی کے بعد اب چھے حروف ختم ہوگئے، فقط ایک پر تلاوت باقی رہ گئی ہے، لیکن پھر سوال پیدا ہوا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کو چھ قراءت ختم کرنے کا اختیار تھا؟طبری رحمہ اللہ اس کا جواب دیتے ہیں کہ سات قراء ا ت میں تلاوت کی اِجازت ابتدائی عہد میں لوگوں کی آسانی کے لئے دی گئی تھی، یہ لازمی نہیں تھی، لیکن جب یہ اختلاف قراءت اُمت کے اختلاف کا سبب بننے لگا توفقط ایک لغت قریش پر قرآن کو باقی رکھا۔(۲۸)