کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 31
دوم : غلط نسخوں سے نقل یہ غلطیاں بھی متعدد وجوہ سے پیدا ہوئیں مثلاً (ا) : سہوکتابت(ب) بعض حروف کے شوشے کم ہوگئے یا مٹ گئے۔(ج) یہ اغلاط چمرے، بردی، جھلی اور کاغذ کے مختلف انواع کی وجہ سے بھی پیدا ہوئیں مثلاً کاغذ یا چمڑا باریک ہوا تو اس میں ایک طرف کالکھا ہوادوسری طرف پھوٹ گیا اور دوسری طرف کے حرف کاجز معلوم ہونے لگا۔ سوم: اختلافات عبارت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ نکتہ چین محض قیاسا اصل متن کو بالارادہ بہتر اور درست کرنے کی نیت سے از خود تصحیح کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ میکلس نے تصریح کی ہے کہ ایک بہت بڑا سبب جس سے عہدنامہ جدید میں مشتبہ مقامات بکثرت پیدا ہوگئے ہیں یہ ہے کہ ایک ہی واقع کا ذکر جن مختلف جگہوں میں ہے ان میں اس طرح تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی جس سے ان میں ایک دوسرے سے زیادہ مطابقت ہوجائے اَناجیل اربعہ کو اس سے خصوصاً نقصان پہنچا۔ چہارم : یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ بعض لوگوں نے ازراہ دوراندیش بھی کچھ تحریفات کیں تاکہ جومسئلہ تسلیم کیا گیا ہے اسے تقویت ہو یا جو اعتراض کسی مسئلے پر ہوتا ہو وہ دور ہوجائے۔ تحریف انجیل کی ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ ابتدائی دور میں لکھنے لکھانے کا سامان کم یاب اور گراں تھا۔ بسااوقات قدیم تحریروں کو مٹا کر پھر انہیں پرنئی تحریریں لکھ دی جاتی تھیں اور بعض اوقات چار چار پانچ پانچ مرتبہ یہی عمل دہرایا جاتاتھا۔یہی صورت انجیل کے ساتھ بھی پیش آئی اور بعض قدیم تحریریں بعدمیں کسی وقت ابھر آئیں اور انجیل کی عبارتوں میں مل گئیں ۔ [اردو دائرہ معارف اسلامیہ مادہ انجیل ص۳۳۱،۳۱۲] قرآن مجید میں بکثرت آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہود و نصاریٰ نے اپنی کتابوں میں تحریف کی ہے۔ اس کے متعلق مزیدتفصیل کے لیے ’’الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح لابن تیمیہ‘‘ کامطالعہ مفید ہوگا۔ ۳۔ زبور : یہ کتاب حضرت داؤد علیہ السلام پرنازل ہوئی اور اس کی ڈیڑھ سو آیات تھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ اپنی سواری کی تیاری کے دوران ہی ان آیات کی تلاوت مکمل کرلیتے تھے۔ لیکن یہ کتاب بھی اب اپنی اصل شکل میں موجود نہیں ہے۔ ۴۔قرآن مجید: سب سے آخر میں ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایاگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کتاب نازل ہوئی، اس کا نام قرآن مجید ہے۔ یہ وہ عظیم کتاب ہے جس کے نزول کاآغاز غارحرا سے ہو ا اور اس کی تکمیل تیئس سال میں ہوئی۔ عمومی قاعدہ کے مطابق قرآن کا وہ حصہ جو ہجرت سے پہلے نازل ہوا’ مکی‘ اور بعد میں نازل ہونے والا ’مدنی‘ کہلاتا ہے۔ خواہ وہ مدینہ میں نازل ہو، مکہ میں یا بیت المقدس یا کسی اور علاقے میں ، سب کا سب حصہ ’مدنی‘ ہی کہلاتاہے۔ علماء نے قرآن کی تعریف ان الفاظ کے ساتھ کی ہے: ’’ھو کلام اللّٰہ تعالیٰ المعجز المنزل علیٰ خاتم الأنبیاء والمرسلین بواسطۃ الأمین جبریل علیہ السلام المکتوب فی المصاحف المنقول إلینا بالتواتر المتعبد بتلاوتہ المبدوء بسورۃ