کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 307
الاسلام فیہ واحدۃ،حدودھا وقراء تھا،وأمراللّٰہ فیھا واحد؟ ولو کان من الحرفین حرف یأمر بشيء ینھی عنہ الآخر کان ذلک الاختلاف ولکنہ جامع ذلک کلہ ومن قرأ علی قراءۃ فلا یدعھا رغبۃ عنھا،فإنہ من کفر بحرف منہ کفر بہ کلہ‘‘
’’تم قرآن مجید میں کسی قسم کا جھگڑا اور اختلاف نہ کرو۔نہ یہ ایک دوسرے کے مخالف ہے اور نہ ایک دوسرے کو ساقط کرتاہے۔کیا تم دیکھتے نہیں کہ شریعت اسلامی ایک ہی،اس کی حدود اور قراءات میں اللہ تعالیٰ نے ایک ہی بات کاحکم دیاہے،اگر ایک حرف کسی بات کا حکم دے اور دوسرا اس سے روکے تویہ اختلاف ہوتا،لیکن یہاں تو ان کو جمع کیا جاسکتا ہے کوئی شخص کسی قراءت کو بے رغبتی کرتے ہوئے نہ چھوڑے۔ جس نے ایک حرف کابھی انکار کیا اس نے مکمل(قرآن مجید) کاانکار کیا۔‘‘
ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات کی طرف اِشارہ کیا ہے۔ جب آپ کے سامنے دو مختلف حروف پر قرآن مجید پڑھنے والوں کا معاملہ آیا تو آپ نے ان میں سے ایک کو کہا:أحسنت۔ دوسری روایت کے لفظ ہیں أصبت۔ ’’تم نے صحیح پڑھا ہے۔‘‘ اور دوسرے سے فرمایا:ھکذا أنزلت، اسی طرح یہ نازل ہوئی ہے ۔ آپ نے دونوں کی تصویب فرمائی اور واضح کردیاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید اسی طرح مختلف حروف میں نازل کیا گیا ہے۔اس سے ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ قراء کااختلاف فقہا کے اختلاف سے مختلف ہے۔ قراء کااختلاف سارے کاسارا حق اور درست ہے، اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کاکلام ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے جبکہ فقہاء کااختلاف اجتہادی ہے۔ ہرمذہب دوسرے کی نسبت سے درست ہے، لیکن خطا کا احتمال رکھتا ہے۔
قراءت اور حروف کی نسبت جن صحابہ کرام یا ان کے علاوہ دیگر لوگوں کی طرف کی جاتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ سب سے زیادہ قراءۃ کرنے والے اور ضبط کرنے والے تھے۔ یہ دوسروں کے نسبت اس فن کے ساتھ زیادہ وابستہ اور منسلک رہے۔ یہی صورت حال ائمہ قراء اور ان کے رواۃ کی ہے۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ اس قاری یاراوی نے لغت میں سے ایک وجہ کو اختیار کیا۔اسے دوسری وجہوں پرترجیح دی اور اس کے ساتھ مستقل طور پر وابستہ ہوگئے۔ یہاں تک کہ وہ اس میں معروف ہوگئے، زمانے میں ان کی تشہیر ہوگئی اور لوگ ان سے قراءۃ روایت کرنے لگے۔اس طرح اس قراءت یاروایت کی نسبت ان قراء اور راویوں کی طرف ہوگئی۔ ان کی طرف یہ نسبت اختیار اور دوام کی ہے، اختراع، رائے اور اجتہاد کی نہیں ہے۔
اسی طرح ہم آیت اور حدیث کاظاہری تعارض ختم کرسکتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف قراءات کے حاملین سے فرمایا: ھکذا،أنزلت اس طرح آپ نے قراءات کے اسی اختلاف کو برقرار رکھااور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِاللّٰہ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافا کَثِیْرًا﴾ [النساء :۸۲]
اس طرح حدیث اور آیت میں کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا۔
٭٭٭