کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 306
دوسری صورت کی مثال: سورہ فاتحہ میں مَالِکِ اور مَلِکِ پڑھا جاتاہے۔ جس کامطلب ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کامالک اور اس کا بادشاہ ہے ۔ دوسری مثال یَکْذِبُون اور یُکَذِّبُونَ ہے۔اس سے مراد منافق ہیں ، کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کوجھٹلایاکرتے تھے۔ اسی طرح نُنشِرُھَا(راء کے ساتھ) اورنُنشِزُھَا(زاء کے ساتھ) دونوں کا مطلب ہڈیاں ہیں ۔أنشرھا یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کیا اورأنشزھا انہیں ایک دوسرے کے اوپر رکھا۔ یہاں تک وہ اکٹھی ہوکر جڑ گئی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں معانی دونوں قراء توں میں جمع کردیئے۔ تیسری صورت کی مثال: ﴿ وَظَنُّوا أنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا﴾ تشدید اور تخفیف کے ساتھ۔ دوسری مثال ﴿وَإِنْ کَانَ مَکْرُہُمْ لِتَزُولَ مِنْہُ الْجِبَال﴾ ایک قراءت میں پہلے لام کے فتحہ اور دوسرے کے رفع کے ساتھ اور دوسری قراءت میں پہلے کسرہ اور دوسرے کے فتحہ کے ساتھ۔تیسری مثال ﴿ قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ ﴾ تاء کے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ۔ ان مثالوں میں کذبوا تشدید کی قراءت کی صورت میں معنی ہوگا۔ رسولوں کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ ان کی قوموں نے انہیں جھٹلا دیا۔ تخفیف کی قرا ء ت کی صورت میں معنی ہوگا کہ ان کی امت کے لوگوں کو اس بات کاوہم ہوگیا کہ ان کے رسولوں نے انہیں خبریں دینے میں جھوٹ بولاہے۔ پہلی قراءت میں لفظ ظن یقین کے معنی میں ہے اور تینوں ضمیریں رسولوں کے لیے ہیں ۔ دوسری قراءت میں ظن شک کے معنی میں ہے اور ضمائر ان کی امت کے لوگوں کی طرف ہیں ۔ ’’لتزول‘‘ میں پہلے لام کے فتحہ اور دوسرے کے رفع والی قراءت میں إن مخففہ من المثقلہ ہے ، معنی ہوگا، ان کامکر اتنا شدید ہے کہ اس سے بڑے بڑے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں ۔ اور دوسری قراءت میں ان نافیہ ہے یعنی ان کامکر اتنا بڑا یا ایسا نہیں ہے کہ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یا دین اسلام ضائع ہوجائے۔ پہلی قراءت میں جبال حقیقی اور دوسری میں مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ لقد علمت۔ضمہ کی قراءت میں علم کی نسبت سیدناموسیٰ علیہ السلام کی طرف کی جارہی ہے۔جب فرعون نے کہا: ﴿إِنَّ رَسُولَکُمُ الَّذِی أُرْسِلَ إِلَیْکُمْ لَمَجْنُون ﴾ ’’تمہاری طرف بھیجا جانے والا رسول مجنون ہے۔‘‘ تو اس کے جواب میں موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ﴿ لَقَدْ عَلِمْتُ مَا أنْزَلَ ھٰؤُلَاءِ إِلَّارَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْأرْضِ بَصَآئِر﴾ ’’یقیناً میں جانتاہوں کہ آسمانوں اور زمین کے رب نے یہ بصیرتیں نازل کی ہیں ۔‘‘ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی ذات کے علم کے متعلق فرمایا: ان باتوں کا جاننے والا مجنون نہیں ہے۔ فتحہ کی قراءت میں اس علم کی نسبت فرعون کی طرف کی گئی ہے ، کہ وہ علم ہونے کے باوجود حق کی دشمنی کی وجہ سے غلط بات کہہ رہا ہے۔ ان مثالوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ الفاظ اور معنی دونوں میں فرق ہے۔ دونوں کاایک مطلب نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود ایک دوسرے پہلو سے ان میں تطبیق دی جاسکتی ہے۔ جس سے تضاد ختم ہوجاتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہر صحیح چیز کو قبول کرنا اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کو جو کچھ بھی دیتے ہیں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتاہے۔ ہرقراءۃ دوسری قراءۃ کے لیے ایک آیت کے ساتھ دوسری آیت کی مانندہے۔ان تمام پر علمی اور عملی طور پر ایمان لازم ضروری ہے۔ایک قراءت کو دوسری قراءت کے معارض سمجھتے ہوئے ترک کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔ اس بات کی طرف عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ کے ساتھ اِشارہ کیاہے: ’’لا تختلفوا في القرآن ولا تنازعوا فیہ فإنہ لا یختلف ولا یتساقط ألا ترون أن شریعۃ