کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 304
بعض لوگ سمجھتے ہیں ۔سب سے پہلے چوتھی صدی ہجری میں ابوبکر بن مجاہد نے قراءات کو جمع کیا۔ اگر حدیث میں موجود سبعہ اَحرف سے یہ سات قراء یا ان کی قراءات مراد ہوتیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے قرآن مجید پڑھنا ممکن نہ ہوتا ،کیونکہ یہ قراء تابعین کے بعد پیداہوئے ہیں ۔ اس کے بعد ان کی سبعہ قراءات مشہور ہوئیں ۔
قراءت حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ثقہ امام سے ایک ایک لفظ لیا جائے وہ اپنے امام سے لے ۔اس طرح اس کی سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جائے۔ اس طرح اس بات پر بھی سب کا اجماع ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہر کلمہ سات طریقوں سے پڑھا جائے، کیونکہ مشہور مذہب کے مطابق عملی طور پر اس کی ایک کلمہ میں بھی مثال نہیں ملتی۔
سبعہ احرف کی مراد کے بارے میں سب سے بہتر قول امام بیہقی، اَبہری اور اکثر علماء نے اختیارکیا ہے کہ سبعہ احرف سے لغات کی مختلف صورتیں مراد ہیں ۔ انہوں نے دلیل کے طور پر یہ آیت کریمہ پیش کی ہے: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَعْبُدُ اللّٰہ عَلٰی حَرْفٍ﴾[الحج:۱۱] ’’لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جوکنارے پر(شک کی حالت میں )عبادت کرتا ہے۔‘‘
حافظ ابوعمرو دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرف کے معنی کی طرف دو پہلوؤں سے اشارہ فرمایاہے:
۱۔ قرآن مجید لغات کی سات صورتوں پر ناز ل کیاگیا۔احرف حرف کی جمع قلت ہے جس طرح فلس و أفلس۔ حرف سے وجہ بھی مراد لی جاتی ہے۔جیسا کہ اس آیت کریمہ میں آیا ہے: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَعْبُدُ اللّٰہ عَلٰی حَرْفٍ﴾[الحج:۱۱]
یہاں پر ’حرف‘ سے وجہ مراد ہے۔ یعنی اگر اسے نعمتیں ملتی رہیں ، معاملات درست رہیں اور وہ مطمئن ہو تو اللہ کی عبادت کرتا ہے اور اگر حالات بدل جائیں ، اللہ تعالیٰ سختی کے ذریعے اس کاامتحان لیں تو عبادت چھوڑ کر کفر اختیار کرتا ہے۔ اس طرح وہ ایک وجہ(صورت) میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتاہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قراءات اور لغات کی مختلف وجہوں کا نام اَحرف رکھا ہے یعنی ان میں سے ہر صورت ایک وجہ ہے۔
۲۔ قراءات کا نام وسعت کے طور پر ’احرف‘ رکھ دیاگیا ہے۔جیساکہ عرب کی عادت ہے وہ کسی چیز کا نام اس کے کسی حصے یا اس سے متعلق کسی چیز کے نام پر رکھ دیتے ہیں مثلاً کسی جملے کا نام اس کے کسی اسم پررکھ دیا جائے۔ کلمہ ’ترحیب‘ کے نام پر مقرر پوری تقریر کرجاتا ہے۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت کا نام حرف رکھ دیا، اگرچہ وہ ایک لمبی کلام ہوتی ہے، کیونکہ اس کے کسی حرف میں ضمہ یا کسرہ کو تبدیل کردیا۔ کسی حرف کو دوسرے سے بدل دیا، کوئی کمی یا اضافہ کردیا۔جیساکہ قرآن مجید کی مختلف قراءات میں آتا ہے، تو عرب کی عادت کے مطابق اس میں سے حرف کا نام قراءۃ رکھ دیا۔
ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اس معنی کا احتمال دونوں صورتوں میں پایاجاتاہے۔ان میں سے پہلا احتمال زیادہ قوی ہے۔ ’’سبعۃ أحرف، أی سبعۃ أوجہ‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول میں دوسرے معنی کا زیادہ احتمال ہے۔ جب آپ نے فرمایا: سمعت ھشاما یقرأ سورۃ الفرقان علی حروف کثیرۃ لم یقرئنیھا رسول اللّٰہ !۔ میں نے ہشام کو سورہ فرقان ان حروف پر پڑھتے ہوئے سنا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ دوسری روایت کے لفظ ہیں :