کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 303
’إن اللّٰہ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی حرف، فقال سل اللّٰہ معافاتہ ومعونتہ إن أمتی لاتطیق ذلک، ولم یزل یردّد المسألۃ حتی بلغ سبعۃ أحرف‘‘[صحیح مسلم :۸۲۱] ’’اللہ تعالیٰ آپ کوحکم دیتے ہیں کہ آپ اپنی اُمت کو قرآن مجید ایک حرف پر پڑھائیں تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے اس کی مدد اور عافیت کا سوال کریں ، میری اُمت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ آپ اسی طرح سوال کرتے رہے یہاں تک کہ سبعہ اَحرف(میں قرآن مجید پڑھنے کی اِجازت) تک پہنچ گئے۔‘‘ جیسا کہ یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچ چکی کہ قرآن مجید سبعہ اَحرف میں نازل ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل انبیاء کرام خاص قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے جبکہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری دنیا کی تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیاہے۔وہ عرب جن کی زبان میں قرآن مجید نازل ہوا، ان کی لغات مختلف اور زبانیں جدا جدا ہیں ۔ ان کے لیے ایک لغت سے دوسری اور ایک حرف سے دوسرے حرف کی طرف منتقل ہونا نہایت مشکل ہے حتیٰ کہ بعض لوگ تو تعلیم اور علاج کے ذریعے بھی ایسا نہیں کرسکتے۔ ایسے میں اَن پڑھ بوڑھے اور خواتین وغیرہ کو دوسری لغت یا حرف کا مکلف بنادیاجاتا تو یہ حکم بجا لانا ان کی طاقت سے باہر ہوجاتا اور وہ اس کی اتباع نہ کرپاتے۔ امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ’المشکل‘ میں فرماتے ہیں ۔یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسانی ہے کہ اس نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ ہر اُمت اپنی لغت اور عادت کے مطابق پڑھ لے۔ ہذلی پڑھتے ہیں (عتی حین) ان کا ارادہ حتی حین کا ہوتا ہے، لیکن اس طرح سے وہ تلفظ اَدا کرتے ہیں ۔ اسدی لوگ(ألم إعھد إلیکم) مضارع کے کسرہ کے ساتھ، بنو تمیم ہمزہ کے ساتھ اور قریشی بغیر ہمزہ کے پڑھتے ہیں ۔ اسی طرح دوسرے لوگ قیل لھم وغیض الماء ضمہ کے اشمام کوکسرہ کے ساتھ، وبضاعتنا ردّت إلینا۔کسرہ کے اشمام کو ضمہ کے ساتھ، ما لک لا تأمنا۔ ضمہ کے اشمام کو ادغام کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اگر ان میں سے ہر فریق دوسری لغت کو اختیار کرنا چاہے تو ان کے لیے بہت مشکل ہے۔خاص طور پر بچوں اور بوڑھوں کے لئے۔ البتہ اگر کوئی اس کے لیے سخت محنت اور مسلسل ریاضت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ رحمت اور محبت کا معاملہ فرماتے ہوئے، اس کے لیے یہ کام آسان بنادیتے ہیں ۔‘‘ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری مخلوق کو قرآن مجید کایہ چیلنج دیا ہے: ﴿ قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰی أنْ یَّأتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْآنِ لَایَأتُوْنَ بِمِثْلِہٖ ﴾[الاسراء :۸۸] ’’آپ کہہ دیجئے! اگرانسان اورجن اس قرآن جیسی مثال لانے پر متفق ہوجائیں (پھربھی)وہ اسکی مثال نہیں لاسکتیـ۔‘‘ اگر قرآن مجید مخاطبین کی لغت کے علاوہ دوسری لغت میں ہوتا تو وہ جواب میں کہہ دیتے، اگرقرآن ہماری لغت میں ہوتا تو پھر ہم اس جیسا کلام بناکرلے آتے اور قرآن کے اس دعویٰ کو وہ جھوٹ قرار دے دیتے۔سبعہ احرف میں قرآن مجید پڑھنے کی اجازت کی وجہ سے کسی کے لیے ابہام باقی نہیں رہا۔ سبعہ احرف سے کیا مراد ہے؟ ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : سبعہ احرف کے معنی کے تعین میں علماء کے تقریباً چالیس اَقوال ہیں ۔البتہ اس بات پر سب کا اِجماع ہے کہ اس سے مشہور سبعہ قراء اور ان کی مروجہ قراءات مراد نہیں ہیں ، جیسا کہ عوام الناس میں سے