کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 301
أحسنت۔میرے دل میں پھر دورِجاہلیت سے بڑھ کر شک اور تکذیب پیداہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پراپنا ہاتھ مارا اور فرمایا:اے اُبی! میں تمہیں شک سے اللہ کی پناہ میں دیتاہوں ۔پھرفرمایا:جبریل ؑ نے میرے پاس آکر کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک حرف پرقرآن مجید پڑھنے کاحکم دیاہے۔میں نے کہا: اے اللہ میری اُمت سے تخفیف فرمائیں ۔ جبریل ؑ نے آکر کہا: اللہ تعالیٰ آپ کودو حروف پر پڑھنے کاحکم دیتے ہیں ۔میں نے کہا:اے اللہ میری اُمت سے تخفیف فرمائیں ۔پھر جبریل ؑ نے آکر کہا:اللہ تعالیٰ آپ کو حکم د یتے ہیں کہ آپ سات حروف پر قرآن مجید کی تلاوت کریں اوراللہ تعالیٰ نے آپ کے ہرسوال کاجواب دیا ہے۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ یوں ہیں : فمن قرأ علی حرف منھا فلا یتحوّل إلی غیرہ رغبۃ عنہ ’’جو ان میں سے کسی حرف پر پڑھے تو وہ اس سے بے رغبتی کرتے ہوئے دوسرے کو اختیار نہ کرے۔‘‘ سیدناابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ ہیں : ’’کلہا شاف کاف ما لم یختم آیۃ عذاب برحمۃ أو آیۃ رحمۃ بعذاب‘‘ ’’تمام(حروف) کافی شافی ہیں جب تک عذاب کی آیت کورحمت یارحمت کی آیت کو عذاب سے نہ بدل دے۔‘‘ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی روایت یوں ہے: ’’فأي ذلک قرأتم فقد أصبتم،ولا تماروا فیہ فإن المراء فیہ کفر ‘‘ ’’ان میں سے تم جس کی قراءت بھی کرو گے وہ درست ہے اور تم اس میں شک نہ کرو، کیونکہ اس میں شک کرناکفر ہے۔‘‘ سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہشام رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی طرح بہت سے واقعات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ پیش آئے۔ اس کی ایک مثال اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان سورہ نحل کے پڑھنے کی صورت میں بیان ہوچکی ہے۔اس کی ایک دوسری مثال عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ابن قیس حضرت عمرو سے بیان کرتے کہ ایک آدمی نے قرآن مجید کی ایک آیت کی تلاوت کی تو سیدنا عمرو نے کہا: یہ تو ایسے ہے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إنَّ ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فأي ذلک قرأتم أصبتم فلا تماروا فیہ)) ’’قرآن کریم سات اَحرف پر نازل ہواہے۔ ان میں سے جو بھی پڑھو وہ درست ہے۔اس لیے تم اس میں شک نہ کرو۔‘‘ یہ حدیث امام احمد نے حسن سند سے روایت کی ہے۔ مسند احمد، ابی عبید اور طبری میں ابوجھم بن صمۃ کی روایت اسی معنی کی بیان کی گئی ہے۔ طبری اور طبرانی میں زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’جاء رجل إلی رسول اللّٰہ ! فقال: أقرأني ابن مسعود سورۃ أقرأنیھا زید بن ثابت وأقرأنیھا أبی بن کعب فاختلفت قراء تھم،فبقراءۃ أیھم آخذ؟ فسکت رسول اللّٰہ ! وعلي إلی جنبہ، فقال علي: لیقرأ کل إنسان منکم کما عُلِّم،فإنہ حسن جمیل‘‘ [معجم الکبیر للطبرانی:۴۹۳۸] ’’ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: مجھے ابن مسعود، زید بن ثابت اورابی بن کعب رضی اللہ عنہم نے ایک سورۃ مختلف قراءات میں پڑھائی ہے۔ میں ان میں سے کس کی قراءت کو اختیارکروں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے جبکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ آپ کے پاس تشریف فرماتھے انہوں نے فرمایا،ہرانسان کو اس طرح پڑھناچاہئے۔جس طرح اسے