کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 297
پہلا اعتراض اگر احرف سبعہ سے مراد لغات سبعہ ہیں توپھر ہر کلمہ میں سات وجوہ قراء ا ت ہونی چاہئیں جبکہ عملاً کم یا زیادہ ہوتی ہیں ؟ اس کا جواب یہی ہے کہ کبھی مختلف لغات ایک کلمہ پر متفق ہو جاتے ہیں تو ان میں ایک ہی قراءۃ ہو گی اور کبھی سات لغات میں دو وجہوں پر اختلاف ہوتا ہے تو ان میں دوہی قراء تیں ہو ں گی ۔لہٰذا یہ اعتراضختم ہوا ۔ دوسرا اعتراض اگر لغات کا اختلاف مراد ہے توپھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیوں کر رہے ہیں جبکہ دونوں کا لغت قریش کا لغت ہے؟ اور ایک لغت میں باہم مختلف ہونا اس قول کی تردید کرتا ہے ۔ جواب قرآن کریم کی تلاوت کادارومدار لغت پر نہیں رہا بلکہ اعتماد سماع پر ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کو جیسے لغت میں پڑھایا وہ اسی کا پابند ٹھہرا۔ اس کی مضبوط دلیل ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے جس میں فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں کا ایک سورۃ میں قراءت کا اختلاف ہوادونوں کا دعویٰ یہی تھا کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح پڑھایا ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ویسے ہی پڑھو جیسے تمہیں پڑھایا گیا ہے۔ اور خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاقول بھی اسی پر دال ہے جب انہوں نے حضرت ہشام رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیا تودونوں نے یہی کہا کہ ہٰکذا أقرأنیہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی یہی جملہ دہرایا کہ یہ سورۃ الفرقان اس طریقے پر نہیں پڑھتے جس طرح آپ نے مجھے پڑھایا ہے تو ان میں سے کسی نے بھی اپنے لغت کی طرف نسبت نہیں کی کہ تیری قراءت لغت قریش کے خلاف ہے بلکہ نسبت سماع عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے اس سے صراحت ہو گئی کہ اعتماد سماع عن النبی صلی اللہ علیہ سولم پر ہے نہ کہ لغت پر تو یہ اعتراض بھی مندفع ہو جاتا ہے۔ پھر اعتماد سماع پر ہونے کی وجہ سے لغات کا اختلاط ہوا اورعرضۂ اخیرہ سے پہلے ان لغات سبعہ کے وہ ابعاض جن کا تعلق تخفیف اور تیسیر کے ساتھ تھا وہ منسوخ ہوگئے اورباقی ابعاضِ سبعہ آج تک موجود ہیں ۔ اور جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے باجماع صحابہ رسم المصحف کا التزام کیا تو وہ اوجہ جن کو رسم عثمانی کاشمول نہ ہو سکا تو وہ شاذہ ٹھہریں اور اس پر اجماع صحابہ ثابت ہو چکا ہے اب ان قراءت کوتفسیر وفقہ اورنحو وادب کے احکام میں استنباط کے طور پر تو لیا جاتاہے، لیکن قرآن سمجھ کر ان کی تلاوت ناجائز ہے اس لیے کہ قرآن مکمل طور پر متواتر ہے۔ ٭٭٭