کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 296
ابو الفضل الرازی رحمہ اللہ کی وفات ۴۵۰ھ اور امام المحققین محمدبن الجزری الدمشقی رحمہ اللہ کی وفات ۸۳۳ھ میں ہے اورسجستانی سے ابن قتیبۃ کا شرف تلمذ بھی ثابت ہے۔ دوسری دلیل: ان اَقوال اربعہ میں بہت حد تک اشتراک اور یکسانیت پائی جاتی ہے زیادہ سے زیادہ یہی فرق سامنے آتا ہے کہ ابو حاتم سجستانی رحمہ اللہ وجوہِ اختلاف لغاتِ سبعہ میں مانتے ہیں جبکہ ابن قتیبہ رحمہ اللہ وجوہِ اختلاف قراءت قرآنیہ میں مانتے ہیں اورابوالفضل الرازی رحمہ اللہ نے ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی اوجہ سبعہ کی تصدیق کرتے ہوئے اختلاف لہجات کا اضافہ کر دیا جو سجستانی کے قول میں نمایاں ہے اس طرح علامہ جزری رحمہ اللہ نے ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی مکمل موافقت کر دی ہے اور الباقلانی رحمہ اللہ نے تو ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی ہی بات نقل کر دی ہے ۔ تو یہ سب کچھ نزاع لفظی اورپہلے قول کی تصدیق ہی ہے۔ لیکن اس تمام تر بحث کو قبول کر لینے کے بعد یہ بھی سوال باقی رہ جاتا ہے کہ احرف سبعہ سے مراد کیا ہے ؟اس کی وجہ یہ ہے کہ ان اَئمہ عظام میں سے کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ احرف سبعہ کی تفصیل ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک استناجِ عقلی ہوتا ہے اور ایک استنباط فقہی نصی ہوتا ہے۔ یہ تمام اقوال استنتاج عقلی تو ہیں یعنی قراء ا ت متواترہ پرغور کیا جائے تو کل یہی اوجہ سامنے آتی ہیں اوریہی تصریح امام ابن الجزری رحمہ اللہ کی بھی ہے کہ میں نے ۳۰ سال سے زیادہ عرصہ اس پر غور کیا تومیرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈالی دی کہ قراءات کا اختلاف ان سات اوجہ سے باہر نہیں ہے اور یہ بات تو تمام کے نزدیک درجہ تسلیم تک پہنچ چکی ہے، لیکن استنباط فقہی نصی کا مسئلہ ابھی تک باقی ہے کہ نص حدیث سے کیا مرا د ہے ؟ اسی طرح حدیث بالا کی روشنی میں احرف سبعہ کے نزول کو تخفیف اورتیسیر علی الامۃ قرار دیا گیا ہے تو ان مذکورہ بالا اوجہ کی تخفیف اورتیسیر کے ساتھ کیا مناسبت بنتی ہے؟ مثلاً تقدیم وتاخیر کے اختلاف کا ایک اعرابی بدو کے ساتھ کیا واسطہ؟ اسی طرح زیادتی ونقصان اوراختلاف اعراب یا اختلاف حروف جس میں تغیر معنی وصورت ہو یا نہ ہو ان تمام چیزوں کا تعلق تسہیل وتیسیر کے ساتھ کمزور ترین نظر آتا ہے۔ البتہ ایک قول اس بارے میں خاصا اقرب معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ’ حروف سبعہ‘ سے مراد لغاتِ سبعہ ہیں اور یہ اہل عرب کے افصح ترین لغات ہیں خواہ وہ لغاتِ سبعہ ایک کلمہ میں مکمل اتفاق رکھتے ہوں یا ان میں باہم اختلاف ہو اور وہ اختلاف دو وجہوں میں یا تین وجوہ میں یا چارمیں یا اس سے زیادہ میں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی ایک کلمہ تمام لغات میں ایک ہی وضع اور کیفیت کا ہوتا ہے تو اس میں ایک ہی قراءۃ ہو گی اور کبھی ایک لغت کے لوگ کیفیت نطق میں اختلاف کر رہے ہوتے ہیں تو ایک لغت میں دو قراء تیں ہو جاتی ہیں ۔ یہ قول جمہور اہل علم اور محققین فن کا ہے۔ جن میں مکی بن ابی طالب القیسی رحمہ اللہ ابوعبید القاسم بن سلام ابو حاتم السجستانی رحمہ اللہ امام طبری رحمہ اللہ ،ابو جعفر الطحاوی رحمہ اللہ اورعصر حدیث کے ادب اورفن بلاغت کے امام مصطفی صادق الرافعی رحمہ اللہ کے اسماء قابل ذکر ہیں ۔ البتہ اس قول پر دواعتراض ہوسکتے ہیں لیکن دونوں اعتراض مضبوط دلائل کے سامنے کمزور ہیں ۔