کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 295
۶۔ ایک کلمے کی دوسرے کلمے کے ساتھ تبدیلی کا اختلاف جیسے ﴿وَانْظُرْ اِلٰی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا﴾ کو قراء سبعہ میں سے نافع، مکی اور بصری رحمہم اللہ نُنْشِرُہَا بالراء پڑھتے ہیں ۔ ۷۔ مختلف لہجات کا اختلاف: جیسے امالہ اور عدم امالہ اسی طرح تفخیم وترقیق ادغام اوراظہار کا اختلاف وغیرہ جیسے ﴿وَہَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی ﴾میں اتاک اور موسی کو حمزہ اور کسائی' امالہ کبری اور ورش امالہ صغری سے پڑھتے ہیں اسی طرح بصری دوسرے میں بھی تقلیل کرتے ہیں ۔ چوتھا قول خاتمہ المحققین امام محمد بن محمد الجزری رحمہ اللہ کا ہے جنہوں نے ۳۰سال سے زائد عرصہ اس حدیث میں غور وخوض کے بعد فرمایا کہ میں نے تمام قراءت صحیحہ ،شاذہ ،ضعیفہ او رمنکرہ کا تجزیہ کیا تو وہ اختلاف کی سات وجوہ سے باہر نہیں ہیں ۔ پہلی: حرکات کا اختلاف جس کی بنیادپر نہ صورتِ لفظ بدلتی ہے نہ معنی بدلتا ہے۔ جیسے البخل بضم الباء وسکون الخاء اور البخل بالفتحتین دوسری: حرکات کا اختلاف اس طرح ہو کہ اس میں تغیر معنی تو ہو لیکن صورت رسمیہ تبدیل نہ ہو جیسے فتلقی آدم ،ضمہ کے ساتھ ،من ربہ کلمات ، منصوب بالجر، جو کہ جمہور قراء سبعہ کی قراءت ہے جبکہ ابن کثیر مکی رحمہ اللہ کے ہاں آدم منصوب بر مفعولیت اورکلمات مرفوع بر فاعلیت ہے۔ تیسری : حروف کا اختلاف جس کی بنیاد پر معنی تبدیل ہو لیکن صورت رسمیہ تبدیل نہ ہو جیسے تبلوا او رتتلوا سورۃ یونس کی آیت ہُنَالِکَ تَبْلُوْا کُلُّ نَفْسٍ مَّا أَسْلَفَتْ میں حمزہ وکسائی' اس کو دو تاء سے پڑھتے ہیں جس کے معنی پیچھے آنے کے ہیں جبکہ باقی حضرات باء کے ساتھ پڑھتے ہیں جو امتحان کے معنی میں آتا ہے۔ چوتھی : وجہ بالاکا عکس یعنی حروف کا ایسا اختلاف جس میں صورت کلمہ تبدیل ہو لیکن معنی میں کوئی اختلاف نہ ہو بلکہ یکساں ہو جیسے ﴿وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْطَۃً ﴾میں خلاد کی ایک روایت نافع ،بزی ،ابن ذکوان، شعبہ اور کسائی رحمہم اللہ کے ہاں صاد کے ساتھ پڑھا گیا ہے ۔ جبکہ خلاد رحمہ اللہ کی دوسری روایت اور باقی قراء سبعہ کے ہاں سین کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ پانچویں :حروف کا ایسا اختلاف جس میں صورت کلمہ اورمعنی وونوں تبدیل ہو رہے ہیں جیسے فَامْضُوْا إِلٰی ذِکْرِ اللّٰہ چھٹی : تقدیم وتاخیر کا اختلاف ۔ اس میں علامہ جزری رحمہ اللہ اور ابوالفضل الرازی رحمہ اللہ دونوں کا اتفاق ہے۔ ساتویں : کمی اور زیادتی کا اختلاف ۔ اس رائے میں بھی ہر دو حضرات کا اشتراک ہے۔ یہ وہ چار اقوال ہیں جو ایک دوسرے کے بالکل متقارب ہیں بلکہ بقول حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ ہر ایک نے اپنے پیشرو کے قول کی وضاحت کی اور اس کی تنقیح کی ہے۔ اور یہ بات چند دلائل کی بنیاد پر صحیح بھی ہے۔ پہلی دلیل: عہد کے اعتبارسے بھی یہ تمام حضرات یہی ترتیب رکھتے ہیں چنانچہ ابو حاتم سجستانی رحمہ اللہ سب سے اقدم ہیں جن کی وفات ۲۵۵ھ؁ میں ہے اوراس کے بعد عبد اللہ بن مسلم بن قتیبہ رحمہ اللہ ہوئے ہیں جو ۲۷۶ھ؁ میں فوت ہوئے ۔ان کے بعد قاضی ابوبکر محمد بن الطیب الباقلانی رحمہ اللہ ہوئے ہیں جو ۴۰۳ھ میں فوت ہوئے ہیں جبکہ