کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 293
آگے جو اَقوال آر ہے ہیں ان میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے بلکہ ان کو ایک دوسرے کی تشریح قرار دیا جائے توزیادہ مناسب ہے ان میں سے
پہلا قول:
ابوحاتم السجستانی رحمہ اللہ کا ہے جن کی رائے میں سبعہ اَحرف سے مراد لغات عرب کی سات وجہیں ہیں ۔
پہلی:ایک کلمے کے بدلے میں دوسرا کلمہ پڑھنا جیسے کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ [القارعۃ:۵] کو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کالصوف المنفوش پڑھتے تھے اورقراءت متواترہ میں فتبینوا کو حمزہ وکسائی فتثبتوا پڑھتے ہیں ۔ [سورۃ النساء:۹۴، سورۃ الحجرات:۶]
دوسری:ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف پڑھنا جیسے لغت دوس میں لام تعریف کو میم سے بدل کر پڑھتے ہیں اس کی تائید حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہوتی ہے جس میں انہوں نے ایک قبیلے کی آمد اور حضور کے ساتھ اس کی گفتگو کا ذکر کیا انہوں نے کہا امن امبر امصیام فی امسفر تو جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لیس من امبر الصیام فی امسفر جبکہ دوسرے اہل لغت اس کوامن البر الصیام فی السفر اور لیس من البر الصیام فی السفر پڑھتے ہیں ۔[البدورالزاہرۃ:۱۸۱،۲۹۹، پہلا بیان سے جبکہ دوسرا ثبت سے ہے] اس طرح بنو ہذیل حتی حین کو عتی حین پڑھتے ہیں ۔[ اور قراءت متواترہ میں حمزہ کسائی اورخلف تبلوا کو تتلوا پڑھتے ہیں ۔[البدور الزاہرۃ:۱۴۲]
تیسری:تقدیم وتاخیر کر کے پڑھنا ۔ چنانچہ اہل عرب کے ہاں عرضت الناقۃ علی الحوض اور عرضت الحوض علی الناقۃ یکساں معنی میں مستعمل ہیں اور قراءت متواترہ میں فیقتلون مضارع معروف اور ویقتلون مضارع مجہول جبکہ حمزہ وکسائی پہلے کو مجہول اوردوسرے کو معلوم پڑھتے ہیں ۔
[التوبۃ:۱۱۱،البدور الزاہرۃ:۱۳۸]
چوتھی:کسی کلمے یا حرف میں زیادتی یا نقصان کرنا جیسے ﴿فَاَصَدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ ﴾[سورۃ المنافقون:۱۰]کو ابوعمرو البصری رحمہ اللہ نے فاصدق واکون من الصالحین اسی طرح وَقَالُوْا اتَّخَذَ اللّٰہ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ[البقرۃ:۱۱۶] کو ابن عامر الشامی بغیرواؤ کے قالوا اتخذ اللّٰہ پڑھتے ہیں ۔
پانچویں :مبنی کی حرکات کا اختلاف جیسے﴿وَالَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَامُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ﴾[النساء:۳۷، الحدید:۲۴] باء کے ضمہ اور خاء کے سکون کے ساتھ عام قراء کی قراءت ہے اور حمزہ وکسائی بالبخل باء اور خاء کے فتحہ کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔[البدورالزاہرۃ:۷۷،۳۱۳]
چھٹی : اِعراب کا اختلاف :جیسے حارث بن کعب رضی اللہ عنہ تثنیہ میں رفع ،نصب ،جرالف کے ساتھ ہی پڑھتے ہیں چنانچہ کہتے ہیں جاء نی رجلان رأیت رجلان مررت برجلان جبکہ باقی اہل لغت رفع الف کے ساتھ اورنصب وجر یائے لین کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔[کتاب المبانی:۲۲۱، اوراس کے بعد کو دیکھ لیا جائے] اور قرآن حکیم میں ﴿قَالُوْا اِنَّ ہٰذَیْنِ لَسَاحِرَانِ﴾[ طہ:۶۳] کو مکی بصری اورحفص کے علاوہ باقی قراء ہذان پڑھتے ہیں ۔