کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 292
لیے کہ سات دفعہ مختلف انداز سے پڑھنا بہت کم حرف میں ثابت ہے، لیکن اگر ان کے استدلال پر غور کیا جائے اور وہ حدیث عمر رضی اللہ عنہ سے ہے جس میں حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں : فقرأ القراءۃ إلی سبعۃ یقرأ جبکہ یہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ چند جملے پہلے یہ فرما چکے ہیں یقرأ علی حروف کثیرۃ تو اس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد حرف سے قراءت ہے اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔ فرماتے ہیں فقرأ قراءۃ أنکرتہا علیہ اور چند جملے بعد اسی لفظ کو دھرایا اور فرمایا ان ہذا قراءۃ سوی قراءۃ صاحبہ جبکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اختلاف حروف میں تھا اس لئے یہ کہنا بجا ہو گا کہ یہ حضرات حرف سے مراد قراءت ہی لیتے ہیں اس کلام کے بعد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ خلیل بن احمد رحمہ اللہ کی مراد قراءۃ سے المقرو ، ہے اور مقروء وہی مختلف اوجہ لغات ہیں یہی جمہور کا مسلک ہے کہ’’ احرف‘‘ سے مراد اوجہ لغات ہیں او راگر ان کی مراد کوئی اور ہے تو علی المعترض البیان۔
چوتھا قول:
بعض کاخیال ہے کہ سبعہ احرف(سات حروف) سے مراد احکام کی سات اصناف ہیں اور ان کی دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جس میں انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ پہلی کتاب ایک دروازہ اور ایک ہی حرف پرنازل ہوئی تھیں جب کہ قرآن سات دروازوں اورسات حروف پر نازل ہوا ہے اور وہ زجر وامر، حلال وحرام محکم ومتشابہ اورامثال ہیں ۔[اس حدیث کی تخریج امام طبری نے اپنی تفسیر میں کی ہے ۔تفصیل کے لئے جامع البیان عن تاویل القرآن :۱/۲۷،۲۸ دیکھ لی جائے ،الاتقان:۱/۴۸]لیکن یہ رائے بھی مضبوط اشکالات کے سامنے کمزور پڑ جاتی ہے۔ مثلاً۔
۱۔ حدیث میں سبعہ احرف کا تعلق قراءت اور کیفیت نطق کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ چنانچہ فرمایا ﴿فَاقْرَؤُا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ﴾ جبکہ مذکورہ بالا اشیاء کا تعلق احکام سے ہے الفاظ کی ادائیگی سے نہیں ۔
۲۔ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اس حدیث کے ضعف پر اجماع نقل کیاہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اس کا انقطاع ثابت کیا ہے اس طرح کہ یہ حدیث ابوسلمہ بن عبد الرحمان حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کر رہے ہیں جبکہ ابو سلمہ کی ملاقات ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا حجت نہ ہوئی۔[البرہان:۱/۲۱۶،۲۱۷،فتح الباری:۹/۲۴]
۳۔ اس رائے کے قائلین کو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استنباط میں غلطی لگی ہے اصل بات یہ ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے دو چیزوں کا اجمالی ذکر ابتدا میں کیا ایک سبعہ ابواب اوردوسری سبعہ احرف۔ پھر تفصیل بیان کرتے وقت ایک کی تفصیل بیان کر دی اوروہ مذکورہ بالا اشیاء ہیں ۔ امر ،زجر،حلال وحرام، محکم ومتشابہ اورامثال، تو درحقیقت یہ تفصیل سبعہ ابواب کی ہے نہ کہ سبعہ احر ف کی ۔[النشر:۱/۲۵]
پانچوال قول
’سبعہ احرف‘سے مراد وجوہ لہجات ہیں جیسے ادغام واظہار،تفخیم وترقیق، امالہ واشباع، مد اور قصر ،تشدید وتخفیف وتسہیل وغیرہ،لیکن یہ رائے بھی قابل اعتناء اس لیے نہیں ہے کہ یہ ساری چیزیں سبعہ احرف کی ایک وجہ میں آسکتی ہیں او راس کو اختلاف لہجات کا نام دیا جا سکتا ہے اس لیے کہ یہ ایک وجہ تو ہو سکتی ہے سات نہیں ہو سکتی۔