کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 290
اختلاف حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہم اورحضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا اختلاف دوسرے قاری کے ساتھ ہوا۔جبکہ مذکورہ اَقوال کا تعلق مفاہیم اورعلمی استنباطات سے ہے۔ ثالثاً: سبعہ اَحرف کے یہ مفاہیم قرآن کے سبعہ اَحرف پر نازل ہونے کی حکمتوں کے ساتھ بھی مطابقت نہیں رکھتے اس لئے کہ وہ حکمت تسہیل اور تیسیر علی الأمۃ تھی تاکہ تمام لوگ قرآن حکیم کی تلاوت کرسکیں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طلب، تسہیل امت کے لئے کی تھی۔ چنانچہ حدیث مذکور میں کہا گیا ہے :یا جبرائیل إنی بعثت إلی أمۃ أمیین منہم العجوز والشیخ الکبیر والغلام والجاریۃ والرجل الذی لم یقرأ کتابا قط قال یا محمد: إن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف جبکہ مذکورہ بالا مفاہیم اس کو اور زیادہ مشکل بنا رہے ہیں ۔ رابعاً: ان آراء میں سے اکثر باہم متداخل بھی ہیں یا اس قدر قریب ہیں کہ ان کو مستقل رائے شمار نہیں کیا جا سکتا۔ بعض دوسرے قابل ذکر اقوال پہلا قول: پہلا قول أبوجعفر بن سعدان النحوی رحمہ اللہ (ابوجعفر محمد بن سعدان النحوی رحمہ اللہ مشہور قراء میں سے ایک ہیں ۔قراءت میں پہلے امام حمزہ کے متبعین میں سے تھے پھر خود ایک قراءت کی نسبت کے ساتھ مشہور ہوئے ۔۲۱۳ھ میں وفات پائی ۔[أنباہ الرواۃ:۳/۱۴]) کا ہے کہ سبعہ احرف والی حدیث ان مشکلات میں سے ہے جن کا معنی کوئی بھی نہیں معلوم کرسکتا۔ اس لیے کہ حرف کبھی حروف ہجاء کے ایک حرف پر بھی بولا جاتا ہے اور کبھی کسی پوری غزل یا قصیدے کو بھی حرف کہہ دیتے ہیں اور حرف جہۃ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔[البرہان فی علوم القرآن:۱/۲۱۳] تو ایسے مشترک لفظ کے مفہوم کی تحدید انتہائی مشکل ہے یہی رائے علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی بھی معلوم ہوتی ہے۔چنانچہ سنن نسائی کی شرح زہر الربی :۱/۱۵۰ میں فرماتے ہیں : ’’إن ہذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فی المراد بہ أکثر من ثلاثین قولا حکیتہا فی الاتقان والمختار عندی انہ من المتشابہ الذی لا یدری تاویلہ ‘‘ [ ط: القاہرہ] لیکن یہ رائے کچھ زیادہ وجیہ معلوم نہیں ہوتی اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اورحضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کے درمیان اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور جن نمازیوں سے ان کاقراءت میں اختلاف ہوا تھا ان کے درمیان فیصلہ فرماتے ہوئے سب کی قراءت کوسن کر ارشاد فرمایا کہ یہ قرآن حکیم سات حروف پر نازل ہوا ہے۔ تو اس بات سے اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ اس کا معنی گو کہ متعین کرنا مشکل ہے لیکن معنی احتمالی کی گنجائش موجود ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر ان معانی پر غور کیا جائے تو لغوی اعتبار سے بھی سوائے ایک کے متعین نہیں کیا جا سکتا مثلاً اگر حرف بمعنی کلمہ(کلمہ بمعنی قصیدہ اور غزل کے ہے اوریہ لغت عرب میں مستعمل ہے) لے لیا جائے تویہ محال ہے اس لیے کہ قرآن سات کلمات سے مرکب تو نہیں ہے بلکہ ہزاروں کلمات پر مشتمل ہے۔اگر حروف ہجاء میں سے حرف مرادلیا جائے تو یہ بھی ناممکن ہے کیونکہ قرآن میں صرف سات حروف ہجاء ہی تو استعمال نہیں ہوئے بلکہ پورے۲۹ حروف ہجاء استعمال ہوئے ہیں ۔