کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 289
طرف ،حداد اورٹکڑا کے معنی میں آتا ہے۔ چنانچہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس بارے میں اہل علم کے چالیس اَقوال نقل کئے ہیں ۔ [الاتقان:۱/۴۵] تاہم ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن پر کوئی دلیل نہیں بلکہ کبھی تو وہ اس حدیث کے مضمون کے مخالف نظر آتے ہیں مثلاً ۱۔ یہ کہ سبعہ احرف سے مراد یہ سات اشیاء ہیں : مطلق، مقید،عام ،خاص نص، موول، ناسخ ومنسوخ، مجمل ومفسر ، استثناء او راس کی اقسام، اور یہ بعض اُصولیین کا مذہب ہے۔ ۲۔ یہ کہ اس سے مراد حذف وصلہ، تقدیم وتاخیر، قلب واستعارہ، تکرار وکنایہ، حقیقۃ ومجاز، مجمل ومفسر ظاہر اور غریب ہیں اور یہ بعض اہل لغت کامذہب ہے۔ ۳۔ یہ کہ سبعہ اَحرف سے مراد تذکیر وتانیث، شرط وجزا، تصریف واِعراب، اقسام اور جواب اقسام جمع وتفریق، تصغیر وتعظیم اور اختلافات ادوات(جس سے معنی میں تبدیلی آرہی ہو یا نہیں )۔یہ بعض نحویوں کا مذہب ہے۔ ۴۔ یہ کہ اس سے مراد معاملات کی سات اَقسام ہیں اور وہ یہ ہیں : زہد وقناعت، حزم وخدمت، سخاوت واستغناء، مجاہد ومراقبہ،خوف ورجاء، صبر وشکر اور محبت وشوق یہ بعض صوفیاء کا مذہب ہے۔ ۵۔ یہ کہ سبعہ احرف سے مراد وہ سات علوم ہیں جن پر قرآن حکیم مشتمل ہے او روہ یہ ہیں : ۱۔ علم الاثبات والایجاد جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ....﴾[آل عمران:۱۹۰] ۲۔ علم التوحید والتنزیہ جیسے : ﴿قُلْ ہُوَ اللّٰہ اَحََدٌ﴾ [الاخلاص:۱] ۳۔ علم صفات الذات جیسے:﴿وَاللّٰہ الْعِزَّۃُ﴾[المنافقون:۸]﴿اَلْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ﴾[الجمعۃ:۱] ۴۔ علم صفات الفعل جیسے: ﴿وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا اللّٰہ ﴾[النساء:۳۶]، ﴿وَاَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ﴾[البقرۃ:۴۳]، ﴿لَاتَاکُلُوا الرِّبَا﴾[آل عمران:۱۳۰] ۵۔ علم صفات العفو والعذاب جیسے: ﴿نَبِّئْی عِبَادِی اَنِّی اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ وَاَنَّ عَذَابِیْ ہُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْم﴾ [ الغافر:۴۹] ۶۔ علم الحشروالحساب جیسے ﴿اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ﴾[الحج:۴۹]، ﴿اِقَرَأ کِتَابَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبا﴾[الاسراء:۱۴] ۷۔ علم النبوات والامامات جیسے ﴿یَاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوْ اللّٰہ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَأُولِیْ الأَْمْرِ مِنْکُمْ﴾ [سورۃ النساء:۵۹، البرہان :۱/۲۲۴، الاتقان :۱/۴۸] یہ اقوال چند وجوہات کی بنا پر صحیح معلوم نہیں ہوتے۔ اَولاً: اِن اقوال کے قائلین اپنے اقوال پر کوئی دلیل شرعی ذکر نہیں کرتے اور نہ کسی بحث علمی کی بنیاد پر یہ بات کہی گئی ہے بلکہ اس سے ہر طبقہ کے اپنے تخصص کی عکاسی ہوتی ہے کوئی نحوی ہے تو اس نے نحوی اُصولوں کو بنیاد بنایا کوئی صوفی ہے تو اس نے اپنے تصوف کی روشنی میں توجیہ کر دی ہے یہی معاملہ فقہاء اوراُصولیین کا بھی ہے۔ ثانیاً: ان میں سے کوئی قول بھی دلالت حدیث کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا اس لیے کہ حدیث میں جو اَحرف سبعہ کوموضوع بنایا گیا ہے اس کا تعلق قراء ا ت اور کیفیات نطق کے ساتھ ہے اور اسی بنیاد پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا