کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 288
۴۔ سنن الترمذی کی روایت حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت جبرائیل علیہ السلام سے ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جبرائیل علیہ السلام ! میں ان پڑھ امت کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں اور ان میں عمر رسیدہ بوڑھے، بوڑھیاں اور نو عمر بچے بھی ہیں ۔جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ ٰان کو قرآن حکیم سات حروف میں پڑھنے کا حکم دیں ۔[سنن التر مذي،باب ماجاء أن القران أنزل علی سبعۃ أحرف:۸/۲۱۸] علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ان اَحادیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ روایت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بہت بڑی تعداد سے منقول ہے، جن میں اکیس اَجلاء صحابہ رضی اللہ عنہم کے اسماء بھی ذکر کیے ہیں اور وہ یہ ہیں :ابی بن کعب،انس بن مالک،حذیفہ بن یمان،زید بن ارقم،سمرۃ بن جندب،سلمان بن صرد،ابن عباس،عبد الرحمان بن عوف،عثمان بن عفان،عمر بن خطاب،عمرو بن ابی سلمہ،عمروبن العاص،معاذ بن جبل ،ہشام بن حکیم،ابوبکرہ،ابوجہیم،ابوسعید الخدری،ابوطلحہ الانصاری،ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم ۔[الاتقان فی علوم القرآن للامام جلال الدین السیوطی:۱/۴۵] ڈاکٹر حسن ضیاء الدین نے ان پر مزید تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اضافہ کیا ہے وہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ،عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور اُم ایوب رضی اللہ عنہا ہیں ۔ [تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوں ہو الأحرف السبعۃ ومنزلۃ القراء ا ت منہا للدکتور حسن ضیاء الدین :۱۰۸] اور محقق ابن الجزری رحمہ اللہ نے ابوعبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ سے صراحتاً تواتر نقل کیا ہے۔ [النشر فی القراءت العشر لابن الجزری:۱/۳۱] اور امام ابو یعلی رحمہ اللہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک دفعہ امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ منبر پر کھڑے ہوئے اور قسم دے کر لوگوں سے پوچھا کیا تم میں سے کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قرآن سات حروف میں اُتارا گیا ہے تمام کے تمام شافی وکافی ہیں ؟ تو صحابہ کے مجمع سے اتنی بڑی جماعت کھڑی ہو گئی کہ جس کا شمار مشکل ہو گیا پھر امیر المؤمنین نے فرمایا میں بھی اس پر گواہ ہوں ۔[الاتقان للسیوطی:۱/۴۵] فقیہ کبیر ملا علی قاری الہروی رحمہ اللہ نے ان اَحادیث کی شرح کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ کے تواترکا دعویٰ الفاظ کے متواتر ہونے کا ہے ورنہ تواتر بالمعنی میں تو کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے۔ [المرقاۃ شرح مشکوٰۃ لملا علی قاری:۵/۱۶] گویا یہ روایت متواتر اللفظ والمعنی ہوئی جوانتہائی نادر ہے۔ مشہور یہودی مستشرق گولڈزیہر کے حسد اور قرآن دشمنی کی انتہا یہ ہے کہ ان تمام حقائق سے نظر پھیرتے ہوئے ابوعبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ کی طرف اس حدیث کے ضعف کا قول منسوب کیا ہے۔ [تفصیل کے لئے ملاحظ ہو مذاہب التفسیر الاسلامی :۵۴] فلعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین دوسری بحث:سبعہ احرف کا مفہوم اور اہل علم کا اس میں اختلاف جب قرآن حکیم کا نزول سبعہ احر ف پر ہونااحادیث متواتر ہ سے ثابت ہو چکا تو پھر ’احر ف‘ سے کیا مراد ہے؟ اور موجودہ قراءات کی ’احرف سبعہ‘ کے ساتھ کیا نسبت ہے؟ یہ ایک ایسا مشکل مسئلہ ہے جو سلفاً خلفاً مختلف فیہ چلا آر ہا ہے، کیونکہ’ حرف‘ لفظ مشترک ہے جو حافہ، ناحیہ، وجہ ،