کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 287
کلام مجید میں شکوک وشبہات ڈالنے کی کوشش کی اور قراءاتِ مختلفہ کوتواتر إلی الرسول کے بجائے اختلاف رسم الخط کا نتیجہ قر ار دیا۔[مذاہب التفسیر الإسلامی از گولڈ زیہر:ص۸،۹] اپنوں نے بھی ان قراءاتِ متواترہ پر اعتراضات کر کے ان کی تنقیص میں کوئی کسر نہ چھوڑی بلکہ بعض اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں سے یہ بات سننے میں آئی ہے کہ اختلاف ِقراء ا ت قاریوں کی خوش الحانیوں کا نتیجہ ہے اور بس۔ لہٰذاضروری تھا کہ اس موضوع کو اُجاگر کر کے ان شبہات کا اِزالہ کر دیاجائے تاکہ لِیَہْلَکَ مَنْ ہَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَیَحْیَی مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃٍ ہو جائے اس کے لئے اس تحریر کوچند مباحث میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی بحث:قراء ا تِ متواترہ کے بارے میں اَحادیث اور ان کی اِسنادی حیثیت ۱۔ صحیحین یعنی صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی روایت ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مجھے جبرائیل علیہ السلام نے ایک حر ف پر قرآن پڑھایا میں مسلسل اس میں تخفیف کامطالبہ کرتارہا یہاں تک کہ سات اَحرف پر بات ختم ہو گئی۔‘‘[صحیح البخاري،باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف:۱۹/۲۷،۲۸،صحیح مسلم:۱/۲۷۳] ۲۔ صحیحین ہی کی دوسری روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہے کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورہ فرقان پڑھتے ہوئے سنا۔ ان کی قراءت میری حضور علیہ السلام کی سکھائی ہوئی قراءت سے مختلف تھی تو میں نے ان کوپکڑنا چاہا، لیکن تھوڑی مہلت دی یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہو گئے۔میں نے انہیں چادر سے کھینچا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ سورۃ الفرقان کی تلاوت کسی اور طرح سے کر رہا ہے جب کہ مجھے آپ نے دوسری طرح سے پڑھائی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو چھوڑ دو کہ کچھ سنائے تو انہوں نے اسی طرح سنادی پھر مجھ سے سنی میں نے اپنے اندازسے سنا دی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کوفرمایا کہ قرآن اسی طرح نازل ہوا ہے پھر فرمایا کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے جو تمہیں آسان لگے پڑھ لو۔ [صحیح مسلم ،باب بیان القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف:۸/۲۱۸] ۳۔ صحیح مسلم کی روایت کے راوی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں تھا۔ ایک شخص آیا اور نماز میں قراءت ایسی کرنے لگا جو مجھے ناگوارگزری پھر ایک اور شخص آیا اس نے پہلے سے بھی زیادہ اختلاف سے قرا ء ت کی جب ہم نماز سے فارغ ہوچکے تو سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔میں نے سارا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں سے سنانے کا مطالبہ کیا اور سن کر دونوں کی تصحیح کر دی تومجھے وہ شرمندگی ہوئی جو جاہلیت میں بھی کبھی نہیں ہوئی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے اس حالت میں دیکھا تواپنا دست مبارک میرے سینے پر رکھا میرے پسینے نکل گئے اور میں گویا اللہ تعالیٰ کو سامنے دیکھ رہا ہوں ۔پھر فرمایااے ابی رضی اللہ عنہ !میری طرف یہ پیغام بھیجا گیا کہ میں قرآن کو ایک حرف پر پڑھوں تومیں نے دعاکی کہ میر ی اُمت کے ساتھ نرمی کی جائے تو مجھے دو حرف پڑھنے کی اِجازت دے دی گئی پھر میں نے اُمت کے ساتھ نرمی کی درخواست کی تو مجھے سات حروف پر تلاوت کی اجازت دے دی گئی اورتینوں دفعہ مجھے ایک زائد دعا کا اختیار بھی مل گیا جس میں سے دو دفعہ میں نے اپنی اُمت کے لئے مغفرت کی دعا مانگی اورتیسری قیامت کے لئے محفوظ کر لی جس دن تمام لوگ انبیاء کرام یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس بھی آئیں گے۔ [صحیح مسلم:۱/۲۷۲،۲۷۳]