کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 283
تعداد ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں ہے۔ یہ لوگ اہل تقوی ،پاکباز ،سچ بولنے والے ،متقن ،قوی الحافظہ ہر لحاظ سے بااعتماد تھے اسی لیے جوقبول عام ان کی مرویات کو حاصل ہوا دوسروں کو نہیں ۔ کچھ لوگوں نے انہی قراء کی مرویات کو(انزل القرآن علی سبعۃ احرف) کا مصداق سمجھا جس کی تردید ہم اپنے مضمون کے شروع میں کر چکے ہیں ۔ ابن مجاہد رحمہ اللہ نے سات مصاحف کی تعداد کے ساتھ توافق قائم کر نے کے لئے صرف سات مشہور قراء کی قراءت جمع کر دیا اور ابن مجاہد رحمہ اللہ بھی سبعۃ احرف سے سات قاری مراد نہیں لیتے تھے بلکہ کلمات میں تلفظ کا تغیر مراد لیتے تھے۔ ان کے اقران اور ناقلین قراءت نے خیال کیا کہ ان جیسی بزرگ ہستیاں تا قیامت پیدا نہ ہوں گی۔ لہٰذا اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے صحیح قراءات کا ذخیرہ ان کے نام لگ گیا اور آج تک انہی کی طرف منسوب ہے۔ اللہ رب العزت کو بھی یہ ہی منظور تھا کہ ان کی مرویات کو دوام بخشا جائے گا۔ اور اسی طرح قراءات ثلاثہ کو بھی سمجھنا چاہیے ان کی اسناد بھی ہر لحاظ سے صحیح ہیں اور انہیں بھی مقبول عام کا مرتبہ حاصل ہے۔ اب ان بزرگ ہستیوں کے متعلق ان کے اقران نے جو تعریفی کلمات کہے ہیں وہ بیان کیے جاتے ہیں مزید طوالت سے بچنے کے لئے قراء عشرہ کے مکمل حالات درج نہیں کیے جو کوئی ان کے حالات جاننے کا خواہش مند ہو تو وہ صرف ان تین کتابوں کی طرف ہی رجوع کر لے تو ان شاء اللہ اس کو قراء عشرہ کے حالات پر تفصیلی باتیں مل جائیں گی ۔ کتابوں کے نام [سیر اعلام النبلاء ،معرفۃ القراء الکبار، طبقات القراء ] اکابر محدثین ائمہ حدیث ائمہ رجال کاقرا ء سبعہ سے شرف تلمذ حاصل کرنا اور ان کی نظر میں قراء سبعہ کی عظمت ومنزلت کی ایک جھلک۔ امام نافع مدنی رحمہ اللہ :آپ نے ستر تابعین سے قران پڑھا۔ مالک بن انس رحمہ اللہ :ان کے تلمیذ عبد اللہ بن وہب فرماتے ہیں قراءۃ نافع سنۃ(نافع کی قراءت مسنون ہے۔) لیث بن سعد رحمہ اللہ :امام اہل مصر کا قول ہے : ’’حججت ثلاث عشرۃ ومائۃ وإمام الناس فی القراءۃ یومئذ نافع بن أبی نعیم وأدرکت أہل المدینۃ وہم یقولون قراءۃ نافع سنۃ‘‘ ’’میں نے ۱۱۳ھ میں حج کیا اور اس وقت قراءات میں لوگوں کے امام حضرت نافع بن ابی نعیم رحمہ اللہ تھے اور میں نے اہل مدینہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ قراءۃ نافع سنت ہے۔‘‘ ابن ابی اویس رحمہ اللہ :کہتے ہیں مجھ سے امام مالک نے فرمایا: ’’قرأ ت علی نافع‘‘ میں نے نافع سے قرآن پڑھا۔ امام عبد اللہ بن کثیر مکی رحمہ اللہ :موصوف نے امام مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ تابعین سے قرآن پڑھا بقول بعض عبد اللہ بن سائب مخزومی رضی اللہ عنہ صحابی سے بھی پڑھا ہے جلالت قدر کے باوصف ائمہ اہل بصرہ کی ایک جماعت نے موصوف سے قرآن پڑھا ہے مثلاً ابو عمرو بن العلاء، عیسی بن عمر، خلیل بن احمد، حماد بن ابی سلمۃ، ابن زید رحمہم اللہ صحیحین میں آپ کی حدیث کی تخریج کی گئی ہے ، امام شافعی رحمہ اللہ نے ابن کثیر رحمہ اللہ کی قراءت نقل کی ہے اور اس کی تعریف فرمائی ہے ۔ چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ نے ابن کثیر رحمہ اللہ شاگرد اسماعیل بن قسطنطین رحمہ اللہ قاری اہل مکہ سے قرآن پڑھا اور فرمایا :