کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 278
بعض لوگوں کے بے تکے اعتراضات اور انکار قراءت پر تعجب ہوتا ہے کہ ان قراءات متواترہ کے علاوہ کئی قراءات کو اکثر مفسرین نے اپنی تفسیروں میں درج کیا ہے۔ جلیل القدر محدثین نے بھی اپنی کتب میں بعض کئی ایک کلمات کو درج کرتے ، پڑھتے پڑھاتے اور ان قراءات کو تحریری شکل میں زینت قرطاس بناتے تو کیا اصول ہے کہ ان کی تحریر تو جائز، لیکن ان کے ساتھ تلاوت کرنا اور پڑھنا پڑھانا ناجائز؟ دوسرا یہ کہ جن حضرات نے قراءات کی حفاظت میں عمر گذار دی ان قراءات کا استعمال کر کے تفسیری اشکالات حل کرتے رہے کیا ان کے لئے کچھ اجر وثواب کی اُمید بھی رکھنی چاہیے؟ان لوگوں کا کیا بنے گا؟ آج بھی دنیا کے بیشتر ممالک میں مختلف قراءات پر عمل ہو رہا ہے۔ مثلا ملک مصر میں روایت ورش اور حفص عام ہے اور ان روایتوں میں قرآن بھی موجود ہیں اسی طرح روایت قالون ، دوری بصری وغیرہ میں قرآن مجید چھپے ہوئے ہیں (راقم الحروف کی لائبریری میں موجود ہیں ۔الحمد للہ اور سوڈان ، ایتھوپیا وغیرہ میں امام دوری بصری کی روایت عام پڑھی پڑھائی جاتی ہے۔ تیونس میں روایت قالون عام ہے۔ جیسے ہمارے ہاں بعض لوگ سوائے روایت حفص کے باقی روایات سے ناواقف ہیں اسی طرح وہاں پربھی عامۃ الناس ہمارے ہاں عام ہونے والی روایت حفص سے ناواقف ہیں وہ اپنی نمازوں میں بھی پڑھتے ہیں کون فتوی دے سکتا ہے کہ یہ تمام لوگ ثواب سے خالی ہیں ؟ اور ان کی نماز یں بھی ضائع ہو رہی ہیں کسی شخص نے اگرکوئی علم پڑھا نہیں یا اس کے رموز واسراء سے بالکل ناواقف ہے تو اس کے نہ ماننے سے علم کی حقانیت اور وجود کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔( اللہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے) مصاحف عثمانیہ کے ساتھ اساتذہ کا بھیجا جانا علامہ خلف الحسینی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن شہروں میں بھیجا، لیکن اس سے کام ختم نہیں ہوا اس مصحف کو اس زمانے کے رسم الخط کے مطابق بغیر نقطوں اوراعراب کے لکھا گیا ان نسخوں کا اس حالت پر پڑھنا صرف پڑھے لکھے لوگوں کے بس میں تھا اور عوام کو پڑھانے کے لئے ذہین استادوں کی ضرورت تھی۔ اسی لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ہر نسخے کے ساتھ ایک متبحر اور موثق حافظ اور جید قار ی کو بھی بھیجا تاکہ وہاں کے لوگوں کو قراءت کی تعلیم،مطالب کے فہم اور اس کے اَحکامات پر عمل کرنے کی تعلیم دے سکے۔روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم دیاکہ مدینہ کے لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیں عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کو قرآن کے ساتھ مکہ میں ، مغیرہ بن شہاب مخزومی رضی اللہ عنہ کو شام میں ، ابو عبد الرحمن سلمی رضی اللہ عنہ تابعی کو مصحف کے ساتھ کوفہ میں اور عامربن عبد القیس رضی اللہ عنہ کو قرآن کے ساتھ بصرہ میں بھیجا ان لوگوں نے قرآن مجید جس طرح رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا یا ان کے اصحاب سے حاصل کیا ویسا ہی اس خطے کے لوگوں کو سکھایا اور بعد میں تابعین نے ان سے حاصل کیا اسی لیے قراءت قرآن کو عام طور پر ان سے نسبت دی جاتی ہے۔ بعض نے کہا کہ آپ نے ایک مصحف بحرین اور یمن میں بھیجا لیکن ان مصاحف کے ساتھ کن اساتذہ کو بھیجا ٰاس کا تذکرہ نہیں مل رہا۔ [دلیل الحیران :۴۳ ، وتاریخ المصحف:۶۰]