کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 277
گئے وہ اب موجود ہیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کہہ سکتے تھے کہ ہمیں آپ کی ثقاہت، عدالت، امامت اور جلالت علمی پر پورا اعتماد ہے، لہٰذا آپ چند قرآن لکھ کر دیں ، لیکن انہوں نے نہایت احتیاط سے کام کیا اورکئی ایک صحابہ( ۱۲ صحابہ) کو آپ کا معاون مقرر کر دیا۔لہٰذا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف نسبت کہ سبعہ احرف کو ختم کرنا بہتان عظیم ہے۔ بالفرض اگر یہ کام انہوں نے کیاتھا تو آخر کس نے انہیں یہ اِجازت دی ؟ اللہ نے یا اس کے رسول نے؟ کہ وہ قراءات جو بحکم الٰہی نازل ہوئیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خو اہش اور دعاکا نتیجہ تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو پڑھائیں کہ ان کو جلا دیا جائے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کا مصاحف جلانا اس میں کوئی شک نہیں کہ متفق علیہ قرآن مجید کہ جن کی تعداد چھ یا سات یا آٹھ تھی۔ ان کی کتابت مکمل ہونے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے باقی تمام قرآنوں کو ایک جگہ جمع کیا او رجلا دیا۔ میرے خیال میں مستشرقین یہیں سے بے مقصد دلیل اخذ کرتے ہیں کہ انہوں نے سبعۃ احرف کو جلا دیا تھا۔ یاد رہے کہ ان جلائے گئے قرآنوں میں جہاں فصیح وجوہ درج تھیں وہیں غیر فصیح منسوخ کلمات اور منسوخ آیات اسی طرح تفسیری کلمات تفسیر ی جملے بھی تھے ۔ ان کو جلا کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بہت اچھاکام کیا تاکہ آئندہ کوئی ان قرآنوں سے تفسیری جملوں کو غیر فصیح اور منسوخ کلمات اور آیات کو قراءت کا حصہ سمجھ کر روایت نہ کرے۔ کیونکہ آرمینیا کے محاذ پر جاری جنگ کے دوران جو قراءات میں اختلاف ہوا تھا اس کا سبب یہ ساری چیزیں تھیں ، اسی اختلاف کو سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ لے کر بارگاہ خلافت میں پہنچے۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مسئلہ کا حل نکالنے کی گذارش کی ۔ نوٹ: جو آیات منسوخ تھیں ، یا غیر فصیح وجوہ عرضئہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکی تھیں اور کئی صحابہ کو ان کاعلم نہ ہو سکا یہ منسوخ اشیاء بلاشبہ عرضۂ اخیرہ سے پہلے سبعۃ أحر ف کا حصہ تھیں ۔ یہاں سے مستشرقین نے محسن اُمت وجامع القرآن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو مشکوک قرار دینے کے لئے رافضی فتنہ کا ساتھ دیا۔ او رکہا کہ انہوں نے سبعۃ احر ف جلا دیئے تھے، لیکن مستشرقین نے جان بوجھ کر اُمت کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی اگر وہ کہتے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ سبعہ احرف جلائے جو عرضۂ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے تو میرا خیال ہے کہ پھر کسی قسم کا اشکال اور تردد باقی نہ رہتا۔ خلاصۂ بحث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو سبعۃ احرف جلائے وہ عرضۂ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے تھے۔ البتہ جن قراءات ، لغات یا وجوہ کی منشاء الٰہی نے باقی رکھا وہ اُس زمانے سے لے کر آج تک محفوظ ومامون ہے۔ اوران پر ہمیشہ خالق کائنات کی حفاظت رہے گی۔قرآن مجید کامعاملہ توایسا ہے کہ اس میں کسی آیت کو اگر بدلنے کی کبھی بھی ناکام کوشش ہوئی تو ایسا کرنے والے کو ہمیشہ ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ متن میں تبدیلی کرنے والے توکیا اس کے غلط مطالب ومعانی نکالنے والے ذلیل ورسوا ہو گئے اگر امت کے کثیر تعداد میں قراءات نقل کرنے والے افراد غلط بات پر قائم ہوتے تو کب سے ان کی شکلیں مسخ ہو چکی ہوتیں ۔