کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 275
سے بالکل خالی رکھا، کیونکہ ان چیزوں کے استعمال سے کلمات کا تلفظ مقید ہو جاتاتھا یہ قرآن چونکہ متفق علیہ تھے اس لیے جو اعراب ان پر لگادیا جاتا وہ صحیح سمجھا جاتا تھا اور باقی اختلافات قراءات کاسراسر انکار ہونا تھا۔
چنانچہ رسم قر آن پر قلم اٹھانے والی ہستیوں نے اس مسئلہ پر اپنی کتابوں میں وضاحت فرمائی ہے۔ صحابہ کرام کے قلم اللہ کے حکم سے اس طرح چلے کہ ایسا رسم الخط تیا رہوا جس سے قراءات کے تمام منقول اختلافات اَخذ ہو سکتے تھے لہٰذا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ محافظ سبعہ قراءات ہوئے۔ اسی طرح زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ بھی قرآن مجید کے محافظ ہیں ۔
باقی رہی دوسری بات کہ صرف لغت قریش کو باقی رکھاگیا اس کی بھی کوئی دلیل نہیں ،کیونکہ ہماری قراءات وروایات میں اِمالہ وتسہیل اور دیگر کئی طرح کے اختلافات بلا شبہ لغت قریش نہیں ہیں بلکہ دیگر قبائل مثلا اہل نجد اسد، تمیم، قیس، وغیرہ کے لغت ہیں ۔یہ اب تک موجود کیوں ہیں ؟ دنیا کے تمام ممالک میں ناقلین قراءات اس پر کیوں عمل پیرا ہیں ؟جس ہستی مقدس نے حفاظت کا دعوی کیا تھا وہ اپنی کتاب کی حفاظت سے عاجز آگیا؟معاذ اللہ
کچھ لوگوں کو صحیح بخاری کی روایت سے غلط فہمی ہو گئی جس کا پس منظر’’إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت فاکتبوہ بلغۃ قریش‘‘ ابن حجربیان کرتے ہیں :
کہ التابوت کی تا میں اختلاف ہوا کہ اس گول ۃ سے لکھا جائے یا لمبی تاسے۔ امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے جب مسئلہ رکھا گیاتوآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کو قریش کے لغت پر لکھو۔ انہوں نے لغت قریش پر کتابت کا حکم دیا تھا نہ یہ کہ باقی لغات کو ختم کر کے قریش کی لغت کوباقی رکھنے کا گویا کہ انداز تحریر اس طرح کا اختیار کیا گیا کہ ایک ہی طرح کے رسم سے تمام ناقلین اپنے اَساتذہ سے ثابت اور منقول اختلافات کو نکال لیں ۔ تاکہ اُمت فتنے میں نہ پڑے او ر سبعہ احرف کا محفوظ ومامون رہیں ۔
منکرین کا اعتراض قرآن کے خلاف
قرآن یہ کہتاہے کہ وحی کو منسوخ کرناصرف اللہ کے اختیار میں ہے نہ کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اختیار میں ۔ چنانچہ ان کا موقف قرآن کے سراسر خلاف ہے۔ ہم قرآن آیات کی روشنی میں نسخ وحی کے مسئلہ پر وضاحت کرنا چاہتے ہیں ۔
نسخ وحی صرف اللہ کے اختیار میں
دلیل اوّل:
فرمانِ الٰہی ہے:
﴿مَا نَنْسَخَ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَأتِ بِخَیْرٍ مِنْہَا اَوْمِثْلِہا﴾ [البقرۃ:۱۰۶]
’’ جو بھی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اسی کی مثل لے آتے ہیں ۔‘‘
اس آیت میں نسخ وحی کی نسبت اللہ نے اپنی طرف کی ہے۔