کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 274
مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا واقعہ
آپ رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ سنۂ نبوت میں مدینہ کا معلم بنا کر بھیجا ، چونکہ یثرب سے ۱۲ آدمی اسلام قبول کرنے کے لئے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں ان کے ساتھ بھیج دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ اسعد بن ضرارہ رضی اللہ عنہ کے گھر ٹھہرے، مدینے والے آپ کو(المقری) ’پڑھانے والا‘ کہا کرتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب رضی اللہ عنہ کو ہدایت کی کہ اہل یثرب کو قرآن پڑھایا کرنا۔[تاریخ طبری:۱/۱۱۶]
نوٹ: اسلام میں سب سے پہلے(المقری) کا لفظ سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے لئے بولا گیا۔
وضاحت
قبائل مکہ اورمدینہ میں لغت عرب کا کافی اختلاف تھا۔ اگر مصعب رضی اللہ عنہ ان کو قریشی لغت پڑھاتے تو ان پر گراں گذرتا بلکہ ہمارا یہ خیال ہے کہ ان لوگوں کو مصعب رضی اللہ عنہ انہیں کی لغت پر قرآن پڑھاتے تھے۔کیا ایسے شخص کونبی صلی اللہ علیہ وسلم استاد بنا کر بھیجیں گے جو سامعین کو اپنی گفتگو ہی نہ سمجھا سکے اورقبول اسلام کے لئے آئے لوگوں پر تلفظ کے معاملہ میں مشقت ڈال دے۔ بلکہ ان لوگوں کوانہی کی لغت پر قرآن پڑھایا جاتا تاکہ زیادہ زیادہ سے لوگوں کا دل قرآن اور اسلام کی طرف مائل ہو سکے اور انہیں دین سیکھنا او رسمجھنا آسان لگے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قراءات کو جلانا اور مصاحف عثمانیہ پر ایک بحث
مستشرقین اورمنکرین قراءات وحدیث نے اس مسئلے کو ہمیشہ توڑ مروڑ کے پیش کیا یہ لوگ یا تو اہل تشیع کی روش پر کار بند ہیں یا محض ہٹ دھر می کی بنیاد پر کتمان حق کر رہے ہیں ۔
جس طرح شیعہ نے اَصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے کے لئے اِیڑی چوٹی کا زور لگایا بعینہٖ منکرین حدیث و قر اء ات نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی ذات پر بہت بڑا الزام لگایا کہ انہوں نے قراءات متواترہ اوروحی الٰہی کو جلا دیا تھااور بعض نے غلط فہمی کے بنا پر یہ کہہ دیا کہ انہوں نے صرف لغت قریش کو باقی رکھا باقی لغات کو جلادیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فن قراءات نہایت دقیق مسائل کا حامل ہے اسی طرح اس کے متعلقہ جو معلومات واقوال ملتے ہیں انہیں بھی فراخ دلی کے ساتھ واضح کرنا ہو گا نہ کہ حق کو دبانے کے لئے کے بعض کو چھوڑ دیا جائے۔لہٰذا اس بحث میں دو اقوال پر بحث کی جائے گی ایک یہ کہ انہوں نے تمام قراءات کو ختم دیا دوسرا یہ کہ انہوں نے علاوہ لغت قریش کے باقی سب کو جلا دیا تھا۔(طحاوی ودیگر رحمہم اللہ کا بھی یہی موقف ہے)
بحث:
مستشرقین کے اعتراضات پر بھی کئی طرح کے اعتراضات وارد ہوتے ہیں کیونکہ ان کی بات نہایت کمزور اوردلائل غیر واضح ہیں ۔
مصاحف عثمانیہ میں اختیار کیا جانے والا رسم الخط بذات خود اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اس الزام سے بری ہیں ۔ اسی طرح جلیل القدر صحابہ کی وہ کمیٹی جنہوں نے نے قرآن مجید کی کتابت خلافت کے حکم پر مکمل کی وہ بھی اس سے بری ہیں ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جو قرآن مجید لکھوائے تھے ان کو اعراب ونقاط اور دیگر علامات وغیرہ