کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 248
کر دی جائے ۔ احرف سبعہ پر انزال قرآن منجانب اللہ امت محمدیہ پر توسع ورحمت اورتخفیف وتیسیر کا معاملہ ہے، کیونکہ اگر عرب کا ہر قبیلہ فتح و امالہ ،تحقیق وتخفیف ،مد وقصر وغیرہ کے متعلق اپنی عادی وطبعی لغت کو چھوڑ کر چارو ناچار دوسرے قبیلہ کے لغت کے موافق پڑھنے کا مکلف قرار دیا جاتا تو اس میں بہت مشقت وتنگی لازم آتی۔‘‘ [البرہان في علوم القرآن للزرکشی:۱/۲۲۷]
پنجم:وہ اَحادیث جن میں ’’سبعہ احرف بمعنیٰ سبعہ انواع اختلافاتِ قراء ت‘‘ پر نزول قرآن کا تذکرہ ہے جن کو قراء واہل فن اپنی اصطلاح میں ’جزوی فرش الحروف‘ سے تعبیر کرتے ہیں ،یہ وہ اَحادیث ہیں جن میں جزوِ غالب کے طور پر مختلف قراءات اورمخصوص فرشی اختلافات کی بابت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے باہم مخاصمۂ ونزاع کا اور پھر سبعہ احرف پر نزول ِ قرآن کے حوالے سے ہر صحابی کی قراءت کے متعلق فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ’’قد أحسنتَ‘‘ ’’ کذلک انزلَت‘‘ ’’قد أصبتَ‘‘ وغیرہ کا بیان ہے،مثلاً سورۂ فر قان کی مختلف قراء آت جَنَّۃٌ نَّاکُلُ ،تَشَّقَّقُ،سُرُجاً اورجَنَّۃٌ یَّأکُلُ، تَشَقَّقُ،سِرَاجًا۔ کی بابت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اورحضرت ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے مابین مخاصمۂ ونزاع والی حدیث میں دونوں حضرات کا اختلاف وتنازع، فرشی اختلافات مخصوصہ کے بارے میں ہوا تھا(لغات کا اختلاف اس لیے نہ تھا کہ دونوں ہی حضرات قریشی تھے)اورحضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے سب ہی قراءات واختلافات اور فرش الحروف کی تصدیق وتصویب فرمائی تھی۔[صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اللّٰہ عزوجل فاقرؤا ما تیسر من القرآن، کتاب فضائل القرآن باب أنزل القرآن علی سبعۃ احرف، صحیح مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین باب بیان أن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف، جامع الترمذی ابواب القراآت باب ما جاء أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف ،سنن النسائی کتاب الافتتاح ،باب جامع ما جاء فی القراءۃ، سنن ابوداؤد:کتاب الوتر ،باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف]
وغیر ذلک۔ان احادیث میں سبعہ احرف کامصداق ’’جزوی ومخصوص فرش الحروف کی سبعہ انواعِ اختلافِ لفظی وقراء تی ‘‘ ہیں ۔
’حر ف ‘ کے اصل معنیٰ’وجہ‘ اور ’نوع‘ کے ہیں اوریہاں قراءت وتلفظِ الفاظ قرآنیہ کی سات اوجہ وانواع مراد ہیں جو بقول علامہ محقق ابن الجزری رحمہ اللہ الحصن الحصین حسب ذیل ہیں :
۱۔ تغیر حرکت مع اتحاد المعنی أفٍّ، أفِّ ، یَحْسَبُ ،یَحْسِبُ
۲۔ تغیر حرکت مع اختلاف المعنی وَقَدْ أخَذَ مِیثَاقَکُم، وَقَدْ أخِذَ مِیثَاقَکُمْ، وَاتَّخِذُوا ،وَاتَّخَذُوا
۳۔ تغیرحرف مع اتحاد المعنی(بصطۃ ،بسطۃ)
۴۔ تغیر حرف مع اختلاف المعنیٰ دون الکتابۃ(تَبْلُوا، تَتْلُوا)
۵۔ تغیر حرف مع اختلاف المعنی والکتابۃ جمیعاً(أشَدّ مِنہُمْ، أشَدّ مِنکُمْ)
۶۔ تقدیم وتاخیر(وَقَٰتَلُوا وَقُتِلُوا، اور وَقُتِلُوا وَقَٰتَلُوا)
۷۔ زیادت ونقص حرف(وَمَا عَمِلَتْہُ، وَمَاعَمِلَتْ) اس اختلاف لفظی وقراء تی کی توجیہ یہ ہے کہ چند مخصوص حروف وکلماتِ قرآنیہ کوکتاب اللہ کی اعجازی شان کی اظہار کی غرض سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے بطور تنوّع وتفنن یعنی ایک ہی مضمون کو مختلف پیراؤں سے تعبیر کرنے کے لحاظ سے مختلف کیفیات بیان وصیغ تعبیر کے مطابق نازل فرمایا ہے جن کی تعلیم حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کوجبرائیل امین علیہ السلام نے رمضان المبارک میں قرآن کریم کے ان مختلف ومتعدد