کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 220
۳۔ معنی میں تغیر کے ساتھ ساتھ حروف میں بھی تبدیلی ہوجائے، لیکن صورت خطی تبدیل نہ ہو۔مثلاً ﴿تَبْلُوْا﴾ کو ﴿تَتْلُوْا﴾ اور ﴿نُنَجِّیْکَ﴾کو ﴿ نُنْحِیْکَ﴾ یعنی حاء کے ساتھ۔ ۴۔ حروف میں تغیرکے باوجود معنی میں تبدیلی نہ ہو جب کہ صورت تبدیل ہوجائے۔ جیسے﴿بَصْطَۃً﴾کی بجائے﴿بَسْطَہ﴾ اور ﴿ اَلِّصَراطَ﴾ کی جگہ ﴿اَلسِّرَاطَ﴾ ۵۔ معنی اور صورت دونوں تبدیلی ہوجائے جیسے ﴿اَشَدَّ مِنْکُمْ﴾اور﴿مِنْھُمْ﴾....﴿یَاتَلِ﴾اور﴿یَتَاَلَّ﴾....﴿فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہ ﴾ کی جگہ ﴿فَامْضَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ﴾ ۶۔ تبدیلی تقدیم و تاخیر کی قبیل سے ہو، مثلاً ﴿فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ﴾کی جگہ ﴿فَیُقْتَلُوْنَ وَیَقْتُلُوْنَ﴾ اور﴿جَائَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ﴾کی بجائے ﴿جَائَ تْ سَکْرَۃُ الْحَقِّ بِالْمَوْتِ﴾ ۷۔ بعض کلمات میں کمی کردی جائے یابعض میں زیادتی حروف ہوجائے۔جیسے وصیّٰ کی جگہ أوصٰی اور ﴿وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْانْثٰی﴾کی جگہ ﴿وَمَا خَلْقُ الذَّکَرِ وَالاُنْثٰی﴾ یعنی راء کے کسرہ کے ساتھ۔ ابومجاہد رحمہ اللہ(صاحب مضمون)کہتے ہیں :ایسے اقوال جن کی طرف ’سبعہ احرف‘کی توضیح کے سلسلے میں رجوع کیاجاسکتا ہے اور جوعقل و نظر کی کسوٹی پرپورا اترتے ہیں یہی مذکورہ بالا چھ اقوال ہیں ۔ جن کی حقیقت اور صواب و خطاء کافیصلہ بڑی بحث و تمحیص اور دقت ِ نظر کے بعد ہی کیاجاسکتا ہے۔ سو جب ہمارے سامنے ان اقوال کے حقائق اور ان کے دلائل واضح ہوجائیں تب ہی ان میں قول ِ مختار کاحتمی فیصلہ کرنا ممکن ہوسکے گا۔ اب ہم اپنے ترتیب شدہ خاکے کی روشنی میں ان چھ اقوال کو ثابت اور متواتر قراءات پر پیش کریں گے۔ جس میں ان پر وارد ہونے والے اعتراضات و اشکالات کو بیان کرتے ہوئے قول ِ راجح کی نشاندہی کی جستجو کی جائے گی اور اللہ کی توفیق اور خصوصی اعانت کے ساتھ اس بحث کے آخر تک ہم کسی ایسے نتیجہ پر پہنچ جائیں گے جو دلائل و براہین کے لحاظ سے مضبوط، اعتراضات سے محفوظ اور قراءات قرآنیہ کے قریب تر ہوگا ۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ سابقہ اَقوال پربحث وتمحیص قولِ اوّل: جس میں حروف کے بارے میں یہ مؤقف اختیارکیا گیا ہے کہ حدیث ِسبعہ احرف دراصل معنوی لحاظ سے متشابہ ہے اور اس کے مفہوم کا اِدراک نہیں ہوسکتا۔ اگر تو یہ بات اس قول کے قائل کی اپنے بارے میں ہے کہ میرے لیے یہ حدیث متشابہ المعنی ہے اورمیں اس کے مفہوم کو نہیں سمجھ سکا، تب تو اس قول میں کوئی مضائقہ نہیں ، لیکن اگر قائل کی مراد تمام اُمت کے لیے مطلق طور پر ہے کوئی بھی اُمتی اس کے مفہوم و حقیقت سے آشنا نہیں تو قائل کا یہ نظریہ فقط ایک غلط فہمی ہے اور اس نظریے کی تردید اس اَمر سے بخوبی ہوجاتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کوسکھانے اور تعلیم دلانے کے لیے مبعوث کئے گئے تھے جس میں آپ کو سبعہ اَحرف کی تعلیم دینے کاحکم بھی تھا۔چنانچہ آپ نے اُمت کو عملاً اس کی تعلیم دی اور انہیں ان حروف پر تلاوت کا حکم دیا۔جس کو اُمت بجا لائی(جیسا کہ اَحادیث سابقہ بھی اس پر مصرح ہیں ) اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سبعہ احرف