کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 217
پہلا قول ابن سعدان نحوی رحمہ اللہ کے بقول حدیث سبعہ اَحرف کا شمار ایسی اَحادیث میں ہوتاہے جواپنے مفہوم ومدعامیں صریح نہیں بلکہ متشابہ ہیں ۔[محمد بن سعدان الضریر الکوفی النحوی المقری ابوجعفر[م ۲۳۱] ،بغیۃ الوعاۃ ۱/۱۱۱] یعنی ان کامقصد و مراد مخفی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ’الحرف‘ ایسا لفظ ہے جومتعدد معانی پربولا جاتا ہے جبکہ اَحادیث میں کسی ایک کا تعین نہیں کیا گیا، لہٰذا اس کے مفہوم کا تعین مشکل ہے۔ دوسرا قول سبعہ اَحرف میں سبعہ کے لفظ سے حقیقتاً عدد مراد نہیں بلکہ یہ لفظ کثرت کے مفہوم میں استعمال کیا گیاہے اور عربی زبان میں یہ عام طریقہ ہے کہ’سبعہ‘کا لفظ بول کر اکائیوں میں کسی شے کا کثر التعداد ہونا مراد لیا جاتاہے۔جس طرح ’سبعین‘ کا لفظ بول کر دہائیوں میں کثرت مراد ہوتی ہے۔لہٰذا اس حدیث کا مدعا یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو کھلی رخصت دی گئی ہے کہ جس لغت کے مطابق چاہیں قرآن کی تلاوت کرلیں ۔یہ قول قاضی عیاض رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے۔ [ابوالفضل عیاض بن موسیٰ الیحصبی[م ۵۴۴]،الدیباج :۲/۴۶] اور اس کو مان لینے سے اس نظریہ کی بھی تائید ہوجاتی ہے کہ قرآن کی بالمعنی قراءت مشروع ہے۔ تیسرا قول سبعہ اَحرف سے اَحکام و معانی کی سات اَصناف مراد ہیں جو یہ ہیں : ٭ حلال و حرام ٭ امر ٭ توبیخ ٭ محکم ٭ متشابہ اور ٭ امثال چوتھا قول سبعہ اَحرف سے اہل عرب کی فصیح لغات میں سے ایسی سات لغات مراد ہیں جن پر قرآن نازل ہواہے۔یہ سات لغات آپس میں بھی مختلف ہیں جن میں سے بعض لغات دوسری لغات کی بہ نسبت قرآن میں زیادہ بھی استعمال ہوئی ہیں ۔یہ قول ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ کا ہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی شعب الایمان میں اس کی تائید کی ہے۔ پانچواں قول یہ سات لغات ایک کلمہ میں اور ایک ہی حرف میں بایں صورت ہیں کہ الفاظ میں تبدیلی کے باوجود معنی میں تبدیلی نہ آنے پائے۔جس طرح کوئی شخص ’ادھر آؤ‘ کے مفہوم کے لیے ’ھلم‘ کی جگہ ’تعال، إلی، قصدی،نحوی اور قربی‘ جیسے دیگر الفاظ استعمال کرتاہے جو کہ الفاظ میں مختلف ہونے کے باوجود معنی میں یکساں ہیں ۔یہ قول ابن جریر طبری رحمہ اللہ کا ہے۔ اس کے بعد حافظ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اب یہ تمام لغات باقی نہیں ہیں بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام مسلمانوں کو ایک حرف اورایک ہی مصحف پر جمع کردیا اور باقی جملہ مصاحف کو ضائع کردینے کا حکم دے دیا،ماسوائے اس مصحف کے جس کو آپ نے خود جمع فرمایا، اس کے علاوہ ہر اس شخص پرجس کے پاس کوئی مصحف ہو آپ نے لازمی کردیا کہ اس کو اپنے پاس نہ رکھے اور ضائع کردے۔ لہٰذا