کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 214
اصرار کرکے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا چلا ؟آپ نے فرمایا کہ اشیا میں مکھیاں بیٹھ گئی تھیں ۔ آپ کے ہاتھ مارنے سے مکھیاں اڑیں تو میں نے سمت کا اندازہ لگایا اور یوں آپ پکڑے گئے۔ وہ ہمیشہ ہاتھوں کی بناوٹ سے احباب کو پہچان لیتے تھے۔ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ اپنے کمرے میں تشریف فرما ہوتے تو وہاں بیٹھے یہ بتادیتے کہ فلاں نمبر کمرے میں اُستاذ موجود نہیں ہے۔ اگر کوئی آدمی حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کو کافی دیر بعد ملتا تو آپ اس سے مصافحہ کرتے ہی پہچان جاتے۔ حسن تدریس ایک بہت ہی اعلیٰ اور مبارک وصف اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کو یہ عطا فرمایا تھا کہ ان کی خواہش ہوتی تھی کہ میرے شاگرد بالکل میری طرح ہی پڑھنے لگیں ۔ طلبا کو تجوید کے موافق پڑھنے کی بڑی سختی کے ساتھ ہدایت فرماتے اور ایک ایک لفظ پر نگاہ رکھتے تھے اور روک ٹوک فرماتے۔ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کے جوانی کے شاگرد آج کل کے عام قاریوں سے اچھا پڑھتے تھے۔ چنانچہ قاری محمد شاہد لکھنوی رحمہ اللہ لاہور تشریف لائے، حضرت قاری صاحب کے شاگردوں کا سن کر بہت خوش ہوئے اور حسن تدریس پر اپنا تاثر ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ صحت لفظی کا اس قدر خیال تو ہمارے مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنو کے اساتذہ بھی نہیں رکھتے تھے۔ بزرگوں اور اَساتذہ کا احترام: حضرت قاری صاحب میں جہاں اور خوبیاں تھیں ان میں ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ بزرگوں اور اساتذہ کا حد درجہ احترام فرماتے تھے۔ حضرت قاری کریم بخش رحمہ اللہ بلحاظ عمر حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ سے کوئی اتنے بڑے نہ تھے۔ بارہا ایسا دیکھا گیا کہ حضرت قاری کریم بخش رحمہ اللہ آپ کو مدرسہ تجوید القرآن میں شاگردوں کے سامنے ڈانٹ رہے ہیں اور وہ تسلیم و رضا کا پیکر بنے اس طرح کھڑے ہیں جیسا کوئی چھوٹا بچہ ہو اور اف تک نہیں کرتے ۔ اسی تواضع کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کو ہر ایک کی نگاہ میں معزز بنا دیا تھا۔ ہمہ گیر شخصیت: حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کی طبیعت باوجود اعتقاد و عمل کی پختگی کے ملنسار اور ہمہ گیر واقع ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مدرسہ تجوید القرآن کی بنیاد رکھتے وقت آپ نے اہل سنت کے مکاتب ثلاثہ یعنی دیوبندی، اہل حدیث اور بریلوی تینوں مکاتب فکر کے مقتدر اور ممتاز ترین علما کو اس تقریب میں مدعو فرمایا۔ چنانچہ دیوبندی مکتب فکر کی طرف سے راس الاولیاء شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کو، اہل حدیث مکتب فکر کی طرف سے حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کو اور بریلوی مکتب فکر کی طرف سے حضرت مولانا ابوالحسنات رحمہ اللہ کو شرکت کی دعوت دی اور یہ تینوں حضرات تشریف لائے مگر عین بنیاد رکھنے کے وقت ان تینوں حضرات نے امام القراء حضرت عبد المالک رحمہ اللہ کو اپنا نمائندہ چن لیا۔ اس طرح بنیاد کی پہلی اینٹ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے رکھی۔