کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 213
تدریس
لاہور میں سب سے پہلے مال روڈ پر ڈاکٹر عزیز الدین کے ہاں کچھ عرصہ پڑھایا۔ پھر ضلع گورداس پور میں بعد ازاں چینیانوالی مسجد لاہور میں تقریباً۲۰ سال پڑھایا۔
تجوید القرآن
آپ رحمہ اللہ نے مسجد نور کوچہ کندیگراں میں اگست ۱۹۵۰ء میں مدرسہ تجوید القرآن کی بنیاد رکھی۔ پھر۱۷/اکتوبر ۱۹۵۶ء /۱۲ ربیع الاوّل۱۳۷۲ھ کو موجودہ عمارت کی بنیاد رکھی گئی۔ جس میں حضرت قاری فضل کریم رحمہ اللہ ، حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ ، حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ ، مولانا ابوالحسنات رحمہ اللہ ، حضرت قاری کریم بخش رحمہ اللہ اور استاذ القراء حضرت قاری عبد المالک رحمہ اللہ کو مدعو کیا اور تمام حضرات نے مدرسہ کی سنگ بنیاد رکھی اور دعا فرمائی۔ حضرت قاری فضل کریم تاحیات اس مدرسہ میں خدمت قرآن میں مشغول رہے۔
رعب و دبدبہ
باوجودیکہ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ ظاہری بصارت سے موصوف نہ تھے، لیکن طالب علموں پر ان کا کچھ ایسا رعب چھایارہتا تھا کہ کیا مجال کہ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ درس گاہ میں موجود ہوں اور کوئی طالب علم دوسرے سے آواز سے بات کرسکے بلکہ اکثر ایسا دیکھا گیا کہ طلباء شور کر رہے ہیں اور حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کو دور سے آتے دیکھ کر ان پر ایسا سناٹا طاری ہوگیا کہ گویا ان کے منہ میں زبان ہی نہیں اور ان کی جماعت پر کچھ ایسی متانت اور سنجیدگی چھاگئی گویا کہ وہ بچے ہی نہیں ہیں ۔ البتہ بڑھاپے میں یہ کیفیت کسی حد تک ملاطفت اور شفقت کے ساتھ بدل گئی تھی۔ بلکہ بعض دفعہ طلبا سے کچھ بے تکلفی بھی فرمالیا کرتے تھے مگر اس حد تک نہیں کہ اس سے تعلیم و انتظام کا کام متاثر ہو۔
ذہانت
حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کی بیٹی کہتی ہیں کہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ طالب علم قرآن پاک زبانی سناتے سناتے اِدھر ادھر متوجہ ہوکر بیٹھے ہی بیٹھے ہاتھوں سے کھیلنے لگتے۔ حالانکہ آواز ایک رتی بھی پیدا نہ ہوتی مگر انہیں علم ہوجاتا کہ وہ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ اشاروں کنایوں میں مصروف ہیں ۔ میں نے ایک دفعہ جب بچے جاچکے تو ان سے پوچھاآپ کو کیسے علم ہوجاتا ہے؟ تو فرمانے لگے کہ آواز کا رخ بدل جاتا ہے چہرہ دوسری طرف کرنے سے آواز کی سمت بدل جاتی ہے۔
اسی طرح اگر کوئی شاگرد(حفظ کا) دیکھ کر سنانا شروع کردیتا تاکہ سبق یاد نہ ہونے کے باعث ڈانٹ ڈپٹ سے بچ جائے تو حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کو علم ہوجاتا شاید سبق یاد نہ ہونے کی صورت میں تو سبق یاد کروادیتے مگر دھوکہ بازی کے باعث بچے سرزنش سے نہیں بچا کرتے تھے۔ ایک اور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ ایک صاحب فرمانے لگے کہ میں اگر آپ کے پاس سے کچھ حالت بیداری میں چرا کر لے جاؤں تو آپ کبھی گرفت نہ کرسکیں گے۔ مذاق میں انہوں نے کچھ اشیاء لاکر رکھ دیں ۔ مختلف اطراف میں چیزیں پڑی تھی۔ اس صاحب نے جونہی اشیاء پر ہاتھ مارا حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے ان کا ہاتھ پکڑلیا۔ وہ اس قدر بوکھلائے کہ انہیں کچھ سوجھتا ہی نہ تھا۔ پھر انہوں نے