کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 203
۳۔اُستاذ القراء حضرت مولاناقاری محمد شریف رحمہ اللہ
نام و نسب:
آپ کا نام محمد شریف اور آپ کے والد کا نام مولا بخش تھا۔ آپ۱۳۴۱ھ کولاہور میں پیدا ہوئے۔ شیخ برادری سے آپ کا تعلق تھا اور کپڑے کی تجارت آپ کا خاندانی پیشہ تھا۔
حصولِ تعلیم:
آپ نے نو سال کی عمر میں حضرت قاری خدا بخش کانٹھوی رحمہ اللہ سے پورا قرآن مجید حفظ کیا۔ دورانِ حفظ پانچ سپارے منزل سناتے اور ختم قرآن کے بعد بیس پارے منزل سناتے۔ حفظ قرآن کے بعد حضرت قاری خدا بخش رحمہ اللہ سے ہی فارسی، نحو، ترجمۃ القرآن، کتب تجوید شاطبیہ و رائیہ پڑھیں ۔ اس کے علاوہ شاطبیہ آپ نے حضرت قاری محمد اسماعیل رحمہ اللہ سے بھی پڑھی۔ حضرت قاری خدا بخش رحمہ اللہ نے خود ہی ان کو مدرسۃ العالیہ فرقانیہ لکھنؤ میں داخل کردادیا وہاں آپ رحمہ اللہ نے حضرت قاری عبد المعبود رحمہ اللہ سے طیبۃ النشر پڑھ کر اجراء کیا اور قراءت عشرہ بطریق طیبہ کی تکمیل کرکے سند فراغت حاصل کی۔اسی دوران آپ نے حضرت قاری احمد علی خاں رحمہ اللہ لکھنوی سے مختلف لہجے سیکھے۔جب امام القراء حضرت قاری عبد المالک رحمہ اللہ لاہور تشریف لائے تو آپ رحمہ اللہ نے ان سے دوبارہ شاطبیۃ،رائیۃ اور درۃپڑھیں ۔ آپ کے ہم سبق ساتھیوں میں حضرت قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ اور حضرت مولانا قاری حکیم محمد حکیم رحمہ اللہ نمایاں تھے۔
حافظہ اور ذہانت:
آپ کے ہم عصروں کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت قاری محمد شریف رحمہ اللہ کو کمال درجہ کا حافظہ عطا فرمایا تھا اور ذہانت و صلاحیت بے مثال تھی۔ دو تین مرتبہ سنتے ہی آپ کو سبق یاد ہوجایا کرتا تھا۔ عام طلبہ کی طرح وقت ضائع نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کبھی حضرت استاذ محترم اور ہم عصروں کو کسی قسم کی شکایت کا موقعہ دیا جس کی وجہ سے حضرت الاستاذ بھی حد درجہ شفقت اور خصوصی توجہ فرمایا کرتے تھے اور باری تعالیٰ نے ہم عصروں میں بھی عزت واحترام عطا فرمایا تھا۔
آپ کا بچپن
آپ اپنے والد صاحب کے منجھلے فرزند تھے۔ بچپن میں چیچک کا شکار ہوئے اور بینائی سے محروم ہوگئے۔ ایک آنکھ میں البتہ معمولی روشنی تھی جو آخر تک رہی اس سے آپ گھڑی کا وقت دیکھ لیتے، دستخط کرلیتے اور راستہ میں تنہا بھی چل سکتے تھے۔بچپن کے دوستوں اور ساتھیوں کا کہنا ہے کہ آپ ہر وقت پڑھنے ہی میں منہمک رہتے تھے اور کوئی وقت بھی آپ کا فضولیات میں نہیں گزرتا تھا۔ فطری طور پر آپ سنجیدگی اور متانت کے پیکر تھے۔ آپ کی طبیعت ہر قسم کے مذاق سے کوسوں دور تھی اورعام بچوں کی طرح کھیل کود والا ذہن بھی نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے آپ ہردلعزیزتھے اور اِحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ آپ کے منہ سے کبھی کسی نے گالی اور ناشائستہ کلام نہیں سنا۔ حتیٰ کہ کبھی کسی