کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 191
ذریعے نازل کیا ہے اور یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے اس واقعہ سے بے خبر تھے۔‘‘[یوسف:۳]
ایسے ہی مختلف انبیاء علیہم السلام کے واقعات کا تذکرہ قرآن حکیم میں ہوا ہے جیسے:
﴿وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰہِیْمَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا﴾[مریم:۴۱]
یعنی ’’اور اس کتاب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ بیان کریں بے شک وہ بڑے سچے نبی تھے۔‘‘
﴿وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مُوْسٰٓی اِنَّہٗ کَانَ مُخْلَصًا وَّ کَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا﴾[مریم:۵۱]
یعنی ’’اور اس کتاب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیجئے جو بڑے مخلص رسول اور نبی تھے۔‘‘
﴿وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِوَ کَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا﴾ [مریم:۵۴]
یعنی ’’اور اس کتاب میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تذکرہ کیجیے وہ بڑے وعدے کے سچے رسول اور نبی تھے۔‘‘
﴿وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا﴾[مریم:۵۶]
یعنی ’’اور اس کتاب میں حضرت ادریس علیہ السلام کا ذکر کیجئے وہ بھی بڑے صادق پیغمبر تھے۔‘‘
ان آیات بینات سے ثابت ہوا کہ یہ اللہ رب العزت کا حکم ہے کہ نیک لوگوں کاتذکرہ کیا جائے ، کیونکہ یہ حضرات اپنے کارناموں کی وجہ سے اور اپنے اعمال صالحہ کی وجہ سے زندہ ہیں جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے
الجاہلون فموتی قبل موتہم
والعالمون وان مّا توفا حیاء
یعنی ’’جہلاء تو مرنے سے پہلے ہی مردوں میں شمار ہوتے ہیں اور علماء کرام مرنے کے بعد بھی زندہ ہوتے ہیں ۔‘‘
اسی طرح ایک اور شعر ہے:
افو العلم حي خالد بعد موتہ
وأوصالہ تحت التراب رحیم
یعنی ’’عالم مرنے کے بعد بھی جب کہ اس کی ہڈیاں تک مٹی میں مل چکی ہوتی ہیں زندہ رہتا ہے۔‘‘
ماہنامہ ’الرشد‘ کے پچھلے شمارے(جو قراءات نمبر کی جلد اوّل تھی) میں مسلک اہل حدیث کے بعض نامور قراء اور علماء کا تذکرہ کیا گیا جو تجوید و قراءت کے ماہر تھے، اس علم سے شغف رکھتے تھے ،اس کو محبوب جانتے تھے اور اس علم کی ترویج و اشاعت میں ہر دم کوشاں رہتے تھے۔ اسی ضمن میں راقم الحروف کچھ مزید نام بیان کرنا چاہے گا۔
بطل حریت حضرت مولاناسیّد محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے چینیاں والی مسجد میں تقسیم ہند سے قبل ہی تجوید و قراءت کا مدرسہ قائم کیا تھا۔ مدرسہ تجوید القرآن چینیاں والی لاہور کا قدیم ترین ادارہ تھا اور اس سے پہلے لاہور میں تجوید و قراءت کا کوئی ادارہ نہیں تھا۔اس عظیم مرکز سے مسلک اہل حدیث اور غیر اہل حدیث مسالک میں بہت جلیل القدر قراء کرام پیدا ہوئے جن کا تذکرہ گذشتہ شمارے میں ہوچکا ہے۔اس عظیم الشان مرکز تجوید و قراءت سے حضرت مولانا قاری فضل کریم رحمہ اللہ ، حضرت مولانا قاری محمد شریف رحمہ اللہ ، حضرت قاری محمد اسماعیل رحمہ اللہ اور استاذ القراء والمجودین قاری المقری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ جیسے نامور قراء وابستہ رہے اور شاندار علمی خدمات انجام دیں ۔
اسی طرح استاذ القراء قاری عبد الوہاب مکی رحمہ اللہ جامعہ رحمانیہ میں کئی سال تجوید و قراءت پڑھاتے رہے جہاں