کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 187
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے یہاں یہ ضرور عرض کروں گا کہ اس موضوع پر اسلم جیراج پوری اورعلامہ تمنا عمادی رحمہم اللہ نے کچھ لکھا ہے۔ ان حضرات کی تحریریں ایسی تو نہیں کہ انہیں درخور اعتناء خیال کیاجائے۔ تاہم علمی محاکمہ اوردلائل کے ذریعے محاسبہ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے اوربذات خود علمی کام ہے، تحقیقی کام ہے۔ جس کی ضرورت ہے اور رہے گی۔اس کام پر کسی عالم کو لگائیے جو عقلی اور نقلی دلائل سے قراءات کے خلاف بولنے والوں کو گنگ کردے۔ آپ کا تیسرا سوال ہے کہ جو لوگ قراءات متواترہ کا انکار کرتے ہیں ، شرعی اعتبار سے ان کا کیا حکم ہے اور اُمت کو ان کے ساتھ کس قسم کابرتاؤ و اسلوب روا رکھنا چاہئے۔ میں کیا اورمیری بساط کیا کہ منہ کھولوں ۔ اس سوال کا جواب جبہ و دستار کے حاملین مفتیان کرام سے طلب کیجئے کہ یہ انہی کا منصب ہے۔ قلندر جز دو حرفے لاالٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا۔ پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر (مدیر ماہنامہ’التجوید‘ فیصل آباد) [۲۴] الجواب ھو الموفق للصواب قرآن کریم کی قراءت عشرہ حق اور منزل من اللہ ہیں انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ، صحابہ سے تابعین اور ان سے ہم تک پہنچا۔ قراءت عشرہ کاثبوت اَحادیث صحیحہ متواترہ سے ملتا ہے۔ عن عمر بن خطاب قال سمعت ہشام بن حکیم یقرأ سورۃ الفرقان فی حیات رسول اللّٰہ ! فاستمعت لقراء تہ فإذا ھو یقرأ علی حروف کثیرۃ لم یقرئنیھا رسول اللّٰہ ! فکدت أساورہ في الصلوٰۃ فتصبرت حتی سلم فلببتہ بردائہ فقلت من أقرأک ھذہ السورۃ التی سمعتک تقرأ۔ قال أقرأنیھا رسول اللّٰہ ! فقلت لہ کذبت فإن رسول اللّٰہ ! قد أقرأنیھا علی غیر ما قرأت فانطلقت بہ أقودہ إلی رسول اللّٰہ ! فقلت إنی سمعت ھذا یقرأ سورۃ الفرقان علی حروفٍ کثیرۃ لم تقرئنیھا فقال أرسلہ اقرأ یا ہشام فقرأ القراءۃ التی سمعتہ فقال رسول اللّٰہ ! کذلک أنزلت ثم قال اقرأ یا عمر فقرأت القراءۃ التی أقرأني فقال کذلک أنزلت إنَّ ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرء وا ما تیسر منہ [صحیح البخاري :۲/۷۴۷] ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو سورۃ الفرقان اس طریقہ سے مختلف پڑھتے سنا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھا تھا اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہوا قریب تھا کہ میں حالت نماز میں ان پر جھپٹ پڑتا تو میں نے صبر کیا یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہوئے میں نے ان کی چادر پکڑی اور انہیں کھینچا میں نے انہیں کہا کہ کس نے آپ کو یہ سورت پڑھائی جیساکہ میں نے آپ کو پڑھتے ہوئے سنا اس پر انہوں نے جواب دیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی میں نے کہا تم جھوٹ بولتے ہوکیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس سے مختلف طریقہ سے پڑھائی جس پر آپ نے پڑھا، میں انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا میں نے عرض کی