کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 186
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس قدر فقیہان حرم بے توفیق
آج کل چلن یہ ہے کہ ایک خاص طبقہ نے تولحن اور لہجہ ہی کو تجوید و قراءت سمجھ لیاہے۔ بعض بے سمجھ ایسے بھی ہیں کہ سانس کی طوالت اور کانوں پر ہاتھ دھر کر تلاوت کو قراءت کا کمال خیال کرتے ہیں ۔ اللہ سمجھ عطا کرے۔ آپ نے اس چار سو پھیلی تاریکی میں اس موضوع پر کام کرنے کے لیے عملی اقدام کافیصلہ کیا ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کی اس سوچ میں برکت دے اور آپ کی مساعی کو شرف قبول عطا کرے اور آپ کے عمل سے علم تجوید و قراءت کی روشنی کو عام فرمائے۔
سچی بات ہے کہ میں تو عالم نہ ملا نہ فقیہ۔ جانے آپ نے مجھے کیوں خط لکھا اور اس وقیع علم پر راہ نمائی کا مطالبہ بھی کردیا۔ من دانم کہ من آنم
راہ نمائی تو وہ کرے جو خود منزل کو جانے، راستے کا علم رکھے، بھلا بھٹکا راہی بھی کبھی راستے کی نشاندہی کرسکتا ہے۔
آپ کا پہلا سوال: ’’کیا مروّجہ قراءات عشرہ(جو مدارس میں پڑھی پڑھائی جارہی ہیں ) کاقرآن و سنت میں کوئی ثبوت موجود ہے؟‘‘ پہلے یہ فرمائیے کہ یہ قراءاتِ عشرہ کون سے مدارس میں پڑھائی جارہی ہیں ۔ صرف چند رکوعات رٹائے جارہے ہیں ۔ انہی کو روایات کانام دے کر محافل قراءت میں رعب داب قائم کیا جاتاہے۔ اس رٹے ہوئے رکوعات کو چھوڑ کر قرآن کے کسی حصے سے تلاوت کرائیے ساری قلعی نہ کھل جائے تو داغ نام نہیں ۔
رہی بات قرآن و سنت میں موجودگی کی تو اگر ان کاوجود کتاب و سنت میں نہ ہوتا تو یہ کب کی مٹ چکی ہوتیں ، ختم ہو چکی ہوتیں ۔ ان کاوجود بھی نہ ہوتا۔عالم اِسلام ہی میں نہیں پوری دنیا میں ایک بھی ڈھونڈے سے نہ ملتا،جو ان قراءات عشرہ کوجانے اور سمجھے، ان کے مطابق تلاوت کرے۔ اللہ کا شکر ہے کہ پورے عالم اسلام میں بلکہ افریقہ جیسے دور دراز علاقوں میں بھی ان قراءات کو جاننے، پڑھنے اور پڑھانے والے موجود ہیں ۔ تورات، زبور، انجیل کا وجود برقرار رکھنا منظور ومقصود نہ تھا، قدرت کی طرف سے ان کا مٹنا اور محو ہونا ہی ہدف تھا۔ ساری دنیا میں تلاش کیجئے ان کتب کا کہیں وجود نہ ملے گا۔ قراءات کا باقی رکھنا مقصود الٰہی تھااور ہے۔ جبھی تو چودہ سو برس بعد بھی یہ قراءات زندہ ہیں اور زندہ رہیں گی۔ اس لیے انکار قراءات والے ایڑی چوٹی کا زور لگالیں ....مٹ جائیں تو کہیے۔ جب تک قرآن کاوجود باقی، قراءات بھی باقی۔ قرآن انمٹ ہے، قراءات بھی انمٹ ہیں ۔ آپ ثبوت مانگتے ہیں ، تواتر اپنی ذات میں سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اس ضمن میں اسلاف اُمت کی وہی رائے ہے جو تابعین کی تھی، جو صحابہ کرام7 کی تھی،جو خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلکہ جو خود رب کائنات کی تھی اور ہے۔یہی رائے اخلاف امت کی ہے۔ قراءات کی طلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اللہ سے کی۔ انہی قراءات کادرس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام7 کو دیا۔صحابہ کرام7 نے ان کو آگے منتقل کیا۔ یہ علم پوری دنیا میں پھیلا۔ اگر یہ مقدس علم کتاب و سنت کے منافی ہوتا تو کوئی تو اس کا راستہ روکتا۔ کوئی تو احمد بن حنبل رحمہ اللہ پیدا ہوتا۔ کوئی تو اس کے خلاف سنت ہونے کا فتویٰ لکھتا جس پر لوگ بھی صاد کرتے۔ آج اکادکا گولڈزیہر کے نقال اس کی بولی بولنے لگیں تو آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا۔ ان کوبولنے اور بھڑکنے دیجئے۔ سورج کی تابانی ساری دنیا کو روشن کرتی ہے۔ چمگادڑ کے شور سے یہ ٹکیہ ماند نہیں پڑتی،نہ سورج کی روشنی میں کمی آتی ہے۔