کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 183
۲۔....حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے سات مصاحف تیارکروانے کے بعد باقی تمام مصاحف کو جلانے کا حکم دیا، وہ دیگر لغات پر مشتمل قرآن پاک تھے۔یہ تب ہوسکتا ہے جب کہ ’سبعۃ احرف‘ سے سبعہ لغات مراد لیے جائیں ۔ مذکورہ بالا تفسیر کے مطابق اس کو صحیح کرنے کے لیے کافی کھینچا تانی کرنی پڑے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نزاع کرنے والے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنا معاملہ لے کر پیش ہوتے اور ان کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سبعہ اَحرف والی حدیث ارشاد فرما دیتے تو فوراً ان کی تشفی ہوجاتی تھی ممکن ہے جب کہ احرف کی تفسیر، عام فہم معنی یعنی لغات ہی سے کی جائے ورنہ اگر احرف کو ’’أوجہ سبعۃ لاختلاف اللفظ‘‘ کے معنی میں قرار دیا جائے تو ایسے غامض و دفیق معنی سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی تشفی نہ ہوتی اور وہ حضرات فوراً بول اٹھتے کہ یا حضرت وہ اوجہ سبعہ کون کون سے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہوا معلوم ہوا کہ احرف بمعنی اوجہ نہیں بلکہ بمعنی لغات ہے۔ [دفاع قراء ات، ص۲۶۴] الحاصل:’سبعہ احرف‘ کا مصداق سبعہ لغات ہیں اُمت کے لیے سہولت پیدا کرتے ہوئے ہر قبیلہ کو اپنی لغت میں پڑھنے کی اللہ جل جلالہ نے اجازت مرحمت فرمائی جب اسلام عجم میں پھیلا تو یہی اِجازت فساد کا موجب بننے لگی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے مشورہ سے باقی لغات کوختم کرکے صرف لغت قریش پرقرآن کو جمع کرنے کا حکم دیا اور مروّجہ قراءت متواترہ سب لغت قریش کے مطابق ہیں مصاحف عثمانیہ میں ان تمام قراءات کی گنجائش موجود تھی۔ مروّجہ قراءات کے تواتر پر اجماع اُمت ہے، ان کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ فقط واللہ اعلم (ر ئیس) مولانامفتی محمدعبداللہ مولانا مفتی محمد اسحاق (دار الافتا جامعہ خیر المدارس، ملتان) [۲۰] قراءات متواترہ حدیث حروف سبعہ کے مطابق اور صحیح سند اور تواتر حکمی سے ثابت ہیں اس لئے ان کا حکم یہ ہے: ۱۔ قرآن یا اس کے کسی جزو کا انکار کفر ہے۔ ۲۔ کوئی اگر بعض قراء توں کو تسلیم کرتا ہو مثلاً روایت حفص کو مانتا ہو اور دیگر کا انکار کرتاہوں تو اس میں مندرجہ ذیل شقیں ہیں : (ا) کسی محقق کے نزدیک دیگر قراء توں کاتواتر ثابت نہ ہو اس وجہ سے ان کا انکار کرتا ہو۔ اس پرتکفیر نہ ہوگی۔ (ب):اس کو دیگر قراء توں کا تواتر سے ثابت ہونا معلوم نہ ہو جیساکہ عام طور پر عوام کو دیگر قراء توں کا علم نہیں ہوتا اور صرف ان ہی لوگوں کاان کو علم ہوتا ہے جوان کے پڑھنے پڑھانے میں لگے ہوں ۔ ایسی لاعلمی کی وجہ سے انکار پربھی تکفیر نہ کی جائے گی البتہ ایسے شخص کو حقیقت حال سے باخبر کیا جائے گا۔ (ج): تواتر تسلیم ہونے کے بعد بھی انکار کرے تب بھی تکفیر نہیں کی جائے گی کیونکہ حقیقتاً یہ تواتر ضروری وبدیہی ہیں بلکہ نظری و حکمی ہے جس کے انکار پر تکفیر نہیں کی جاتی۔ البتہ سخت گمراہی کی بات ہے۔ [قراءات نمبر، ص۱۴۰] امین احسن اصلاحی اور جاوید غامدی جو ان قراءات کا انکار کرتے ہیں کسی علمی بنیاد پرنہیں کرتے بلکہ محض قیاس آرائی سے کرتے ہیں ہیں اور یہ ان کی شدید گمراہیوں میں سے ایک ہے۔