کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 182
امام کبیر ابوشامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : بعض متاخرین نے قراءت کے مقبول ہونے میں تواتر کی شرط لگائی ہے اور سند کی صحت کوکافی نہیں سمجھا ہے، لیکن چونکہ انہی کی بعض وجوہ ایسی بھی ہیں جن میں تواتر نہیں پایاجاتا اس لیے ان میں شہرت اور استفاضہ کی شرط لگانی پڑے گی۔ [مقدمہ کشف النظر:۲/۷۸]
’سبعۃ احرف‘ کی دوسری تفسیر
معروف محقق ماہرفن علامہ ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’مجھے اس حدیث(سبعہ احرف) کے بارہ میں بہت عرصہ تردد، شبہ اور اشکال رہا ہے اور میں اس میں تیس سال سے زیادہ عرصہ تک سوچ بچار اور غورفکر کرتا رہا یہاں تک کہ حق تعالیٰ نے مجھ پر اس کاایک مطلب منکشف فرما دیا ممکن ہے کہ وہ درست ہو(اِن شاء اللہ) اور وہ یہ ہے کہ میں نے صحیح، شاذ، ضعیف، منکر اور تمام قراء توں کی جستجو اورچھان بین کی تو ان کے اختلاف کی نوعیت کو ذیل کی سات قسموں سے باہر نہیں پایا انہی سات قسموں میں سے کسی نہ کسی طرح تغیر ہوتاہے۔
۱۔ ....حرکات میں تغیر ہوجائے لیکن لفظ کے معنی اور صورت میں نہ ہو۔ جیسے ’’بالبخل، بالبخل‘‘(اس میں چار وجوہ ہیں جن میں سے باقی دو ’’بالبخل، بالبخل‘‘ شاذ ہیں اور جیسے : ’’یحسب، یحسب‘‘(اسی طرح قرح، قرح)
۲۔....حرکات اور معنی میں تغیر ہوجائے صورت میں نہ ہو جیسے : ’’فتلقی آدم من ربہٖ کلمٰت‘‘ اور ’’فتلقی آدم من ربہٖ کلمت‘‘ اور ’’وادکر بعد امۃ‘‘ اور ’’امۃ‘‘(ابن عباس، زیدبن علی، ضحاک، قتادہ، ابورجاء، شبیل بن عزوہ ضبعی، ربیعہ بن عمر رضی اللہ عنہم اور ’’امۃ‘‘ طویل مدت کے اور ’’امہ‘‘ نسیان کے معنی میں ہے۔ [ہکذا فی لسان العرب]
۳۔....حروف اور معنی میں تغیر ہوجائے۔جیسے: ’’تبلوا، تتلوا‘‘ اور ’’ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک‘‘ اور ’’ننحیک ببدنک‘‘
۴۔....اس کے برعکس اور صورت میں تغیر ہوجائے لیکن معنی میں نہ ہو۔ جیسے کہ: ’’بصطۃ، بسطۃ‘‘ اور ’’الصراط، السراط‘‘
۵۔....حروف، معنی، صورت، تینوں میں تغیر ہوجائے۔ جیسے ’’أشد منکم، اشد منھم‘‘اور’’یاتل، یتال‘‘ اور ’’فاسعوا إلی ذکر اللّٰہ ‘‘ اور ’’فامضوا الی ذکر اللّٰہ ‘‘ (عمرو ابن عباس رضی اللہ عنہ ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ )اسی طرح ’’کالعھن، کالصوف‘‘ اور ’’فوکذہ، فلکزہ‘‘۔
۶۔....تقدیم و تاخیر کا تغیر ہو۔ جیسے: ’’فیقتلون ویقتلون‘‘ اور ’’فیقتلون و یقتلون‘‘ اور شاذ قراءت پر ’’وجاء ت سکرۃ الحق بالموت‘‘(ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) اسی طرح ’’فاذا قھا اللّٰہ لباس الخوف والجوع‘‘
۷۔....حروف کی زیادتی اور کمی کا تغیر ہو۔جیسے: ’’واوصیٰ، ووصٰی‘‘اور شاذ قراءات پر’’والذکر والانثٖی‘‘ اسی طرح ’’فإن اللّٰہ الغنی‘‘ اور ’’وما عملت أیدیھم‘‘ (الخ) [مقدمہ کشف:۲/ ص۴۶]
یہ تفسیر چند وجوہ سے مرجوح معلوم ہوتی ہے:
۱۔....قراءاتِ متواترہ میں مذکورہ اختلافات کے علاوہ بھی اختلافات موجود ہیں ، مثلاً :اظھار، ادغام، روم، اتمام، تفخیم، ترقیق، حد، قصر، امالہ، تسھیل، ابدال وغیرہ۔ گو ان کو داخل کرنے کے لیے بعض علماء نے کچھ توجیہات بھی کی ہیں تاہم بظاہر یہ اختلافات مذکورہ بالا وجوہ سے خارج ہیں ۔