کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 181
چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ :’’میں تم سب سے زیادہ فصیح ہوں اورمیری زبان سعد بن ابی بکر کی زبان ہے۔ـ‘‘ اورایک اور حدیث میں آیا ہے کہ: ’’میں خالص عرب ہوں اور قریش میں پیداہوا ہوں اور بنی سعد میں پرورش پائی ہے میرے پاس لحن(غلطی)کہاں آسکتی ہے‘‘ اور قرآن میں ہے : ﴿وَھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ﴾ پس عرب کو عام رکھا ہے اور کسی قبیلہ کو خاص نہیں کیااور ان سات حروف میں وہ دس قراء تیں بھی داخل ہیں جو ہمیں تواتر کے ساتھ پہنچی ہیں اور وہ قراء تیں بھی جو پہلے انہیں کی طرح متواتر تھیں لیکن اب باقی نہیں رہیں ۔کیونکہ قرآن مجید ہمیشہ غلطی سے محفوظ رہا ہے اور ائندہ بھی رہے گا۔چنانچہ ارشاد ہے: ﴿إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ [غیث النفع] تواتر قراءات ۱۔ امام ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ نے کتاب القراءات کے شروع میں صحابہ اور غیر صحابہ میں سے ان حضرات کے نام لکھے ہیں جن سے سبعہ عشرہ قراءات منقول ہیں اور وہ ستائیس(۲۷) ہیں : ( ۱ تا۴)حضرات خلفائے راشدین اربعہ (۵) طلحہ (۶) سعد (۷) ابن مسعود(۸)حذیفہ(۹)سالم (۱۰)ابوہریرہ (۱۱) ابن عمر (۱۲) ابن عباس (۱۳) عمرو بن العاص (۱۴)عبداللہ بن عمرو(۱۵) معاویہ ابن زبیر(۱۷)عبداللہ بن سائب (۱۸) عائشہ (۱۹) حفصہ (۲۰) اُم سلمہ علیہ السلام (۲۱)ابی بن کعب (۲۲)معاذ بن جبل (۲۳)ابوالدرداء (۲۴)زید بن ثابت (۲۵) ابوزید (۲۶) مجمع بن جاریہ (۲۷) انس بن مالک ] [کشف النظر، ص۱۱] جن قراءات کے ناقل حضرات صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی اتنی بڑی جماعت ہو وہ یقیناً متواتر شمارہوں گی۔ ۲۔ مصاحف ِ عثمانیہ پر حضرات صحابہ کااجماع ہے اور یہ مصاحف قراءات عشرہ پر مشتمل تھے اسی وجہ سے ان کو حروف اور نقاط سے مجرودرکھا گیاتھا۔ ۳۔ امام زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وقد انعقد الاجماع علی حجیۃ القراءات القراء العشرۃ الخ [البرھان فی علوم القرآن:۱/۳۲۲،۳۲۱] ۴۔ نیز قراءاتِ متواترہ معتبرہ کے لیے حضرات محققین نے جو ضابطہ مقرر کیا ہے وہ ضابطہ بھی مروّجہ تمام قراءات پر صادق ہے۔ ضابطہ : ’’ ۱۔ ....جو قراءت نحوی وجوہ میں سے کسی ایک وجہ کے موافق ہو۔ ۲۔....مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کی رسم کے مطابق ہو۔ ۳۔ ....صحیح اور متصل سند سے ثابت ہو جس میں یہ تینوں وجوہ پائی جائیں وہ قراءت صحیح ہے۔ [مقدمہ کشف النظر ، حصہ دوم] مناہل الفرقان میں ہے: جمع عثمانی میں مندرجہ ذیل امور کا لحاظ رکھاگیا ہے: ۱۔....مصحف میں وہ چیز درج ہو جس کے قرآن ہونے کا قطعی یقین ہو۔ ۲۔ ....یہ معلوم ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور ِ تلاوت میں وہ باقی تھا۔ ۳۔....جس کی صحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو اور منسوخ التلاوت نہ ہو۔‘‘ [جلد۱، ص ۱۵۰]