کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 179
۳۔ لما کانت أحادیث إنزال القرآن علی سبعۃ أحرف متواترۃ فإن منکر الأحرف السبعۃ أصلا مع عنہ بتواتر أحادیثھا کافر لا شک ولاریب [الأحرف السبعۃ ومنزلۃ القراءات منہا، ص۱۰۱،دفاع قراء ات، ص۹۴]
’’چونکہ سبعہ احرف پر انزال قرآن کی احادیث متواترہ ہیں اس بناء پرتواتر کے علم کے باوجود سرے سے سبعہ احرف ہی کا منکر بلاشبہ کافر ہے۔‘‘
۴۔ ما اجتمع فیہ ثلاث خلال من صحۃ السند وموافقۃ العربیۃ والرسم۔ قطع علی مغیبہ وکفر من جحدہ [النشر الکبیر:۱/ ۱۴، دفاع قراء ات، ص۹۴]
’’جس قراءت میں صحۃ سند، موافقت ِ عربیت، موافقت ِ رسم یہ تینوں چیزیں جمع ہوں اس کے نزول من الغیب کی قطعی تصدیق کی جائے گی اور اس کے منکر کو کافر قرار دیا جائے گا۔‘‘
(ب) حدیث((أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)) متواتر ہے جیساکہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے ظاہر ہے لیکن اس حدیث پاک سے قراءات کے تواتر پراستدلال محل نظر ہے جس کی متعدد وجوہ ہیں ۔
۱۔ ’’سبعۃ أحرف‘‘ کا مصداق کیا ہے اس کے بارے میں آراء مختلف ہیں اس کی راجح تفسیر’سبع لغات‘ ہے، جمہور علماء کا موقف بھی یہی ہے۔ چنانچہ شاطبیہ کے شارح زینت القراء فخر القراء حضرت اقدس مولاناقاری فتح محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’علامہ دانی رحمہ اللہ اور اکثر محققین اورجمہور اہل اَدا کی رائے پر سات حروف سے سات لغا ت مراد ہے....قراء سبعہ قراء تیں بھی ان سات حروف میں شامل ہیں ۔[ شرح شاطبی،ص۲۹]
۲۔ ایسے ہی محقق زمان حضرت مولاناقاری محمدطاہر رحیمی مہاجرمدنی رحمہ اللہ اپنی کتاب کشف النظر شرح کتاب النشرمیں ارشاد فرماتے ہیں :’’اکثر علماء محققین اور جمہور اہل اداء کی رائے پر سات حروف سے سات لغات مراد ہیں ۔‘‘ [ج۱،۲/ص۴۳]
۳۔ عرب کی لغات جداجدا اور زبانیں متفرق تھیں اورایک لغت والے کو دوسرے کی لغت میں پڑھنا دشوار تھابلکہ بعض بالکل پڑھ ہی نہیں سکتے تھے پس اگر اس حالت میں ایک ہی حرف پر پڑھنے کاحکم ہوتا تو یہ تکلیف تحمل سے باہر ہوتی یا سخت مشقت پیش آتی۔[مقدمہ کشف النظر، ص۲۵۸]
۴۔ ابن قتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’اگر ان حضرات میں سے کوئی فریق یہ چاہتا کہ وہ اپنی لغت کوچھوڑ دے تو اس میں اس کو بڑی دشواری پیش آتی پس حق تعالیٰ نے اس اُمت کو جس طرح احکام میں آسانی دی تھی اسی طرح قرآن کریم کے لغات اور حرکات و سکنات میں بھی وسعت دی‘‘ الخ۔ [مقدمہ کشف النظر، ص۲۵۹]
۵۔ حضرت محقق امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’حدیث میں دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں ، لیکن قوی یہ ہے کہ ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ میں تو سات وجوہ مراد لی جائیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول’’ سمعت ھشاما یقرأ سورۃ الفرقان علی حروف کثیرۃ‘‘(الحدیث) میں حروف سے مراد قراءات لی جائیں ۔‘‘ [مقدمہ کشف النظر، ص۲۵۹]
۶۔ (ا) امام سیوطی رحمہ اللہ نے ان نسخوں کی تعداد جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تیار کروائے تھے سات تک نقل کی ہے۔ جو مدینہ منورہ، مکہ مکرمہ، شام،یمن، بحرین، بصرہ اور کوفہ کی طرف بھیجے گئے پھر ان نسخوں سے بے شمار نسخے تیار کئے