کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 177
متواترۃ....‘‘ [ ابن أبی شریف:۷۸ بحوالہ جبیرۃ الجراحات فی حجیۃ القراءت:۶۹] البتہ قراءت عشرہ کے بارے میں تحقیقی رائے یہ ہے کہ یہ بھی تمام کی تمام متواتر ہیں ۔ جیسا کہ علامہ محمد عبدالعظیم الزرقانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ : أمّا القرأت الثلاثۃ المکملۃ للعشر فقیل فیھا بالتواتر ویعزی ذلک إلی ابن السبکی وقیل فیھا بالصحۃ فقط ویعزی ذلک إلی الجلال المحلی وقیل فیھا بالشذوذ یعزی ذلک إلی الفقھاء الذین یعتبرون کل ما وراء القرأت السبع شاذاً ۔ والتحقیق الذی یؤیدہ الدلیل ھو أن القراءات العشر کلھا متواتر وھو رأی المحققین من الأصولیین والقرآء کابن السبکی وابن الجزری والنویری بل ھو رأی أبی شامۃ في نقل أحرم،صححہ الناقلون عنہ ۱ھ‘‘ [مناہل العرفان:۱/۴۳۴] اسی طرح فتاویٰ حقانیہ میں ہے کہ الجواب: قراءت عشرہ اگرچہ تواتر سے ثابت نہیں مگر اس کا ثبوت حد شہرت کو پہنچا ہوا ہے اس میں قرآن پڑھنے والے کو خاطی کہنا درست نہیں ۔ اس لیے کہ اس انکار کے زد میں کبار تابعین رحمہم اللہ و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آئیں گے۔ [فتاویٰ حقانیہ:۲/۱۶۰] اگرچہ دوسرے اہل علم سات قراءت کے علاوہ تین قراءات کو مشہور کہتے ہیں ، لیکن قراءت عشر کے علاوہ دوسری قراءت کے شاذ ہونے پراجماع ہے۔ [شرح سبعہ قراء ت، ص۶۹] گویا خلاصہ یہ ہواکہ قراءت عشرہ ثابت ہیں ۔ ان کے ثبوت پر سب اہل علم کا اتفاق ہے۔ جمہور اہل علم اگرچہ ان جملہ ’’دس‘‘ قراءت کو متواتر مانتے ہیں ، لیکن دیگر علماء قراءات سبعہ کو متواتر اور ان کے علاوہ تین قراءت کو آحاد میں سے شمار کرتے ہیں ۔ ۳۔یہی وجہ ہے کہ قراءت متواتر کو ماننا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے جبکہ ان سے انکار موجب ضلالت اور گمراہی ہے۔اُمت مسلمہ کو اس قسم کے اعلانیہ فسق و فجور کروانے والے کے ساتھ قطع تعلق کرنا چاہئے۔ لقولہ علیہ السلام من رأی منکم منکراً فلیغیّرہ بیدہ وإن لم یستطع فبلسانہ وإن لم یستطع فبقلبہ وذلک أضعف الایمان(أو کما قال علیہ السلام) (ھذا ما ظھر لی،واللّٰہ أعلم بالصواب إلیہ نرجع والیہ مأب) مولانا مختار اللہ حقانی (مفتی ومدرس جامعہ دار العلوم حقانیہ ،اکوڑہ خٹک ،نوشہرہ) [۱۸] الجواب حامد او مصلیا : مروّجہ قراءاتِ عشرہ صرف ثابت ہی نہیں بلکہ اسلاف ِ امت نے ان کے ثبوت اور متواتر ہونے پر اجماع نقل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو ضروریاتِ دین میں سے شمارکیا ہے۔ لہٰذا جو شخص قراءاتِ متواترہ کا انکار کرے دائرہ اِسلام سے خارج ہے۔