کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 175
۱۔ قراءت متواترہ:یہ سات قراءت ہیں جو قراءت سبعہ کے نام سے مشہور ہیں ۔ ان قراءت کی نسبت سات قرائے کرام کی طرف کی جاتی ہے۔ ۱ امام نافع ۲ امام عاصم ۳ امام عبداللہ بن عامر ۴ امام عبداللہ بن کثیر۵ امام ابوعمر بن العلاء ۶ امام حمزہ ۷ امام علی الکسائی رحمہم اللہ ۲۔ قراءت آحاد: یہ تین قراءات ہیں جو قراءت ثلاثہ کے نام سے مشہور ہیں ۔ ان دونوں انواع کے مجموعے کو قراءت عشرہ کہا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا سات کے علاوہ ان تین قراءت کی نسبت(۱)۱امام ابوجعفر (۲) امام یعقوب اور (۳)امام خلف رحمہم اللہ کی طرف کی جاتی ہے۔ ۳۔ قراءت شاذہ: یہ چار قراءت ہیں اور ان تینوں انواع کے مجموعے کو قراءات الأربع العشر کہا جاتاہے۔ مذکورہ چار کی نسبت (۱) امام حسن بصری (۲) امام بن محیصن (۳) امام یحییٰ یزیدیاور ۴ امام شنبوذی رحمہم اللہ کی طرف کی جاتی ہے۔ چنانچہ ان قراءات کے بارے میں علامہ جلال الدین البلقینی کا قول ملاحظہ ہو: اعلم أن القاضي جلال الدین البلقینی قال: ’’القرأۃ تنقسم إلی متواتر وآحاد وشاذ فالمتواتر القراءات السبعۃ المشہورۃ والآحاد القراءت الثلاثۃ التي ھي تمام العشر ویلحق بھا قراءۃ الصحابۃ والشاذۃ قراءت التابعین کالأعمش ویحییٰ بن وثاب وابن جبیر ونحوھم [الإتقان في علوم القرآن:۱/۲۵۸] ان مختلف قراءت میں قرآن کریم کانزول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، مثلاً صحیح بخاری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’عن ابن عباس أن رسول اللّٰہ ! قال: أقرأنی جبریل علی حرف فراجعتہ فلم أزل أستزیدہ و یزیدني حتی انتھی إلی سبعۃ أحرف‘‘ [صحیح البخاري:۲/۷۴۷۷] اسی طرح صحیح بخاری شریف میں دوسری حدیث ہے:’’عن عمر بن خطاب قال سمعت ہشام بن حکیم یقرأ سورۃ الفرقان فی حیاۃ رسول اللّٰہ ! فاستمعت لقرأتہ فإذا ھو یقرأ علی حروف کثیرہ لم یقرأنیھا رسول اللّٰہ ! فکدت أساورہ فی الصلوٰۃ فتصبرت حتی سلم فلببتہ بردائہ فقلت من أقرأک ھذہ السورۃ التی سمعتک تقرأ قال أقرأنیھا رسول اللّٰہ ! فقلت لہ کذبت فإن رسول اللّٰہ ! قد أقرأنیھا علی غیر ما قرأت فانطلقت بہ أقودہ إلی رسول اللّٰہ ! فقلت إنی سمعت ھذا یقرأ سورۃ الفرقان علی حروف کثیرۃ لم تقرأ نیھا فقال أرسلہ اقرأ یا ہشام فقرأ القرأت التی سمعتہ فقال رسول اللّٰہ ! کذلک أنزلت ثم قال إقرأ یا عمر فقرأ القرأۃ التی أقرأنی فقال کذلک أنزلت إنَّ ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرأوا ما تیسر منہ‘‘ [صحیح البخاري :۲/۷۴۷] ان روایات کے اندر لفظ سبع کی اگرچہ مختلف توجیہات اور تشریحات کی گئی ہیں مگر ان میں راجح تشریح و توجیہہ یہ ہے کہ حروف کے اختلاف سے مراد قراء توں کااختلاف ہے اور سات حروف سے مراد اختلاف قراءت کی سات نوعیتیں ہیں اور سات کا یہ عدد صرف سات میں انحصار کے لیے مستعمل نہیں ہوا ہے بلکہ اس استعمال یہاں کثرت کے لیے ہے۔ چنانچہ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ’’المصفی شرح المؤطا‘‘میں لکھا ہے کہ: ’’ودلیل برآنکہ ذکر سبعہ بجہت تکثیر است نہ برائے تحدید اتفاق ائمہ است برقرأت عشر و برقرأت