کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 170
(ا) کسی محقق کے نزدیک دیگر قراء توں کاتواتر ثابت نہ ہو، اس وجہ سے انکار کرتا ہو اس پر تکفیر نہ ہوگی۔
(ب) اس کو دیگر قراء توں کاتواتر سے ثابت ہونامعلوم نہ ہو، جیسا کہ عام طور پر عوام کو دیگر قراء توں کاعلم نہیں ہوتا اور صرف ان ہی لوگوں کو ان کا علم ہوتاہے جو ان کو پڑھنے پڑھانے میں لگے ہوں ، ایسی لاعلمی کی وجہ سے انکار پر بھی تکفیر نہ کی جائے گی، البتہ ایسے شخص کو حقیقت حال سے باخبر کیاجائے گا۔
(ج) تواتر تسلیم ہونے کے بعد بھی انکار کرے تب بھی تکفیرنہیں کی جائے گی، کیونکہ حقیقتاً یہ تواتر ضروری و بدیہی نہیں بلکہ نظری و حکمی ہے جس کے انکار پرتکفیر نہیں کی جاتی، البتہ یہ سخت گمراہی کی بات ہے۔[فقہی مضامین: ص۱۱۸]
وللتفصیل فلیراجع إلیٰ :
۱۔ شرح الطیبۃ لأبی قاسم النویری رحمہ اللہ
۲۔ دفاع قراءات از حضرت مولاناقاری طاہررحیمی
۳۔ مقدمہ شرح سبعۃ قراءات از امام القراء محی الاسلام پانی پتی
مولانامفتی خلیل الرحمن
دارالافتا دارالعلوم کورنگی ،کراچی
[۱۵]
الجواب باسم ملہم الصّواب
زیرنظر فتویٰ متعلقہ ’قراءاتِ قرآنیہ‘، مجریہ01-06-09ازجامعہ لاہور الاسلامیہ، شرعی اُصولوں کے مطابق درست ہے۔ البتہ دو باتیں مکرر تاکید ووضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔
۱۔ قراءات قرآنیہ کا اختلاف فقہاء کرام کے اجتہادی اختلاف سے مختلف ہے کیونکہ فقہاء کرام کا اختلاف ان کے فہم و دقیقہ سنجی کے اعتبار سے ہوتاہے، جب کہ قراءات کا اختلاف اجتہادی نہیں بلکہ توقیفی ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء کرام اپنی آراء کے متعلق تو یوں فرماتے ہیں :
’’مذھبنا صواب یحتمل الخطاء، ومذھب مخالفنا خطاء یحتمل الصواب‘‘
[مقدمہ رد المختار: ۱/۴۸]
لیکن قراءات کے متعلق یہ نہیں کہا جاتا، بلکہ وہاں کہا جاتاہے۔
’’والقراءات السبع المرویۃ عن القراء السبعۃ المتواترۃ نقلت من النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘‘
[غایۃ الوصول شرح لب الأصول، ص۳۴]
۲۔ لہجات و قراءات قرآنیہ سے متعلق احادیث،محدثین، و قراء کی تصریحات کے مطابق تواتر لفظی سے ثابت ہیں ، اور تواتر معنوی میں تو کسی کا اختلاف ہی نہیں نیز امت کااجماع بھی ان کی قطعیت کی ایک اوردلیل ہے۔لہٰذا جو شخص قراءاتِ قرآنیہ میں سے کسی ایک کا بھی بلا تاویل علی الاطلاق انکار کرے تو وہ متواتر کا منکر ہونے کے ساتھ ساتھ اجماع کا بھی منکر ٹھہرے گا، اور ایسے شخص کے ایمان جانے کا خطرہ ہے جب کہ تاویل کے ساتھ انکار