کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 167
۳۔ جواب: اور جب یہ معلوم ہو کہ یہ قراءات متواترہ ہیں تو یہ مسئلہ جمہور کے نزدیک اتفاقی ہے کہ جو ثبت بالتواتر سے منکر ہو تو کافر ہے جیسا کہ امام سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب قطف الأزھار المتناثرۃ في الأخبارالمتواترۃ میں صفحہ ۱۳ پر لکھا ہے کہ ’’وحکم الثلاثۃ الأوّل تکفیر جاھدھا و منکرھا‘‘ اور جیساکہ یہ مسئلہ ابن الجزری رحمہ اللہ نے النشر ج۱ ص۱۴ میں لکھا ہے کہ فإذا اجتمعت فیہ ھذہ الخلال الثلاث قریٔ بہ وقطع علی معیبہ وصحتہ وصدقہ لأنہ أخذ عن إجماع من جھۃ موافقۃ خط المصحف و کفرمن جحدہ۔
ابوزکریا عبدالسلام الرستمی
(الجامعۃ العربیۃبڈھ بیر، پشاور)
[۱۲]
الجواب بعون اللہ الوھاب
والصلاۃ والسلام علی من أرسلہٗ شاھداً ومبشراً ونذیراً وداعیاً إلی اللّٰہ بإذنہ وسراجاً منیراً
وبعد:
۱۔ صورتِ مسئولہ میں معلوم ہوکہ قرآن مجید ’سبعہ احرف‘ یعنی سات لہجوں اور قراء توں میں نازل ہوا ہے۔جیساکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد و فرمان ہے:(( إِنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَیٰ سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ فَاقْرَئُ وا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ )) (الحدیث) کہ یہ قرآن سات طریقوں پر نازل ہوا ہے، پس ان میں سے جو میسر وآسان ہو اسے پڑھو۔[صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘حدیث:۴۹۹۲و مع الفتح: ۹/۲۳]
یہ حدیث شریف، صحیح البخاری میں متعدد مقامات پر مذکور ہے۔ اس کے علاوہ صحیح مسلم، سنن ابوداؤد، نسائی، ترمذی وغیرہ میں بھی صحیح سندوں کے ساتھ ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی یہ قراء تیں اور ان میں حروف و لہجوں کی تبدیلی اور فرق وغیرہ ایسی چیز ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ،اپنی جانب سے یااپنی صوابدید اور رائے کی بنیاد پروقوع پذیر نہیں فرماتے تھے بلکہ اس کا براہ راست تعلق تنزیل اور وحی سے ہوتا تھا۔چنانچہ قرآنِ کریم فرقانِ حمید نے اس بات کوبہت وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے: ﴿وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ آیٰتُنَا ....قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِیْ....﴾[سورۃ یونس:۱۵] ’’کہہ دیجئے! یہ میرا اختیار نہیں کہ میں اس(قرآن) میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی کردوں میں تو اپنے اوپر کی گئی وحی کاپابند ہوں ، اگر میں نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو ایک بڑے دن کے عذاب کا مجھے اندیشہ ہے۔‘‘
اُمت کی سہولت و آسانی کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد اور بے قراری کو قرآن مجید و احادیث مبارکہ میں بہت سے مقامات پرواضح کیا گیاہے۔ یہ ’’تسہیلی‘‘ و تخفیف کبھی کمی کی صورت میں ہوتی تھی اور کبھی اضافے کی صورت میں ۔ چنانچہ پچاس نمازوں کے معاملے میں تخفیف کے مطالبے پر یہ نمازیں صرف پانچ باقی رکھی گئیں ۔ اسی طرح قراءت ولہجات کے سلسلے میں یہ سہولت دی گئی۔ جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں :((أَقْرَأَنِي جِبْرِیلُ عَلَی حَرْفٍ