کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 163
شدہ نہ تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں اِرشاد فرمایا۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ قرآن مجید میں اضافہ، یا کوئی تبدیلی یا زیادتی آپ کے بس کی بات نہ تھی۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا........الخ﴾
’’جو لوگ ہماری ملاقات کی اُمید نہیں رکھتے تھے انہوں نے کہا(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تو اس قرآن کی جگہ کوئی اور قرآن لے آ یا اس میں کوئی تبدیلی کردے۔(ہم تیری مان لیں گے) اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کہہ دیجئے کہ یہ میرے بس میں نہیں کہ اپنی مرضی سے قرآن میں تبدیلی کروں ۔ میں تو صرف وحی کاتابع ہوں ....الخ‘‘
اسی طرح فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الَاقَاوِیْلِ٭ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ٭ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ﴾ [الحاقۃ:۴۴۔۴۶]
’’اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف کوئی بات گھڑ کرمنسوب کرتا تو ہم اس کودائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی شاہ رگ کاٹ دیتے۔‘‘
قراءات کے منزل ہونے کی زبردست دلیل ہے:
مذکورہ بالا اَحادیث اور قرآنی آیات:
سوال: قراءات کے بارہ میں اسلاف امت کی رائے:
جواب : اسلاف کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قراءات منزل من اللہ ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اَخذ کیں ہیں اور بعد والوں تک پہنچائیں ۔ ذیل میں ہم اسلاف کے چند اَقوال حجیت قراءات اور آراء نقل کرتے ہیں :
۱۔ امام ابن جریرطبری رحمہ اللہ [متوفی ۳۱۰ھ] کا موقف:
آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس جوبھی صحیح سند کے ساتھ قراءات آئی ہیں وہ انہی حروف سبعہ میں سے ہیں ۔ جن کی اللہ نے اپنے رسول مکرم کو پڑھنے پڑھانے کی اجازت دی تھی۔
ہمارے لیے جائز نہیں ہے کہ مصاحف عثمانیہ کے رسم کے مطابق قراءات پڑھنے والے کو غلط کہیں ۔ [الإبانۃ،ص ۵۳]
۲۔ امام ابن مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو قراءات مدینہ، مکہ، بصرہ، شام، کوفہ میں پڑھی جارہی ہیں ۔انہوں نے اپنے اسلاف سے ان کو حاصل کیا ہے۔ان شہروں میں ہرایک آدمی ایسا تھا جس نے تابعین سے قراءات نقل کی تھیں ۔ عام اور خاص نے انہی کی قراءت کو اپنایا۔ [کتاب السبعۃ ، ص ۴۹]
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ولم ینکر أحد من العلماء قراءات العشرہ ولکن من لم یکن عالماً بھا أو لم تثبت عندہ‘‘ [دقائق التفسیر،ص۷۰] ’’قراءات عشرہ کاانکار کسی عالم سے ثابت نہیں ۔ ہاں جو(قراء ات) کے عالم نہ تھے، یا ان کے ہاں وہ قراء ت(بطریق صحت)ثابت شدہ نہ تھی۔ انہوں نے انکار کیا۔‘‘
امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’کل قراءۃ وافقت العربیۃ ولو بوجہ ووافقت أحد المصاحف العثمانیہ ولو احتمالا وصح سند ھا فھی القراءۃ الصحیحۃ لا یجوز ردّھا ولا یصح إنکارھا‘‘ [النشر: ۱/۹]
’’ہر وہ قراءت جو کسی نحوی وجہ کے موافق ہو اور مصاحف عثمانیہ کا رسم اس کا ظاہری یا تقدیری طور پر متحمل ہو اور اس کی سند صحیح ہو تو وہ قراءۃ صحیحہ ہے۔ جس کا ردّ یا انکار ناجائز اور غلط ہے۔‘‘