کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 159
اس سے معلوم ہوا کہ جہالت و لا علمی کو اتمام حجت کے سلسلہ میں ایک رکاوٹ شمارکیا گیا ہے، اس لیے ہمیں چاہئے کہ اگر کوئی جہالت کی وجہ سے قراءات متواترہ کاانکار کرتا ہے تو اس کی جہالت دور کی جائے۔
اگر قراءاتِ متواترہ کاانکار کسی معقول تاویل کی بناپرکرتا ہے تو اسے بھی معذور تصور کیاجائے گا، لیکن تاویل کے لیے ضروری ہے کہ الفاظ میں عربی قاعدہ کے مطابق اس تاویل کی کوئی گنجائش ہو اور علمی طور پر اس کی توجیہہ ممکن ہو۔ اگر کسی کو اس تاویل سے اتفاق نہ ہو تو اسے کافر کہنے کی بجائے تاویل کنندہ کی تاویل کا بودا پن واضح کردیا جائے،لیکن ہر تاویل، تکفیر کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی، اگر تاویل کی بنیاد محض عقل و قیاس اور خواہشات نفس ہیں تو اس قسم کی تاویل کرنے والا معذور نہیں ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس لعین سے سوال کیاتھا کہ تو نے آدم کو سجدہ کیوں نہیں کیا تو تاویل کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے۔[الأعراف:۱۲]
اس طرح باطنی حضرات کی تاویلات ہیں جن کی بنیاد پر انہوں نے شرعی واجبات سے راہ فرار اختیار کیا ہے۔ بہرحال اگر کسی نے متواتر قراءات کاانکار معقول تاویل کی وجہ سے کیاہے تو اسے کافر نہیں قرار دیاجائے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص تکبر و عناد اور بدنیتی کی بناء پر قراءت متواترہ کاانکار کرتا ہے تو اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے ایسا انسان بالاجماع گمراہ اور اہل ایمان کے راستہ سے ہٹا ہوا ہے۔
آخر میں ہم اللہ کے حضور دست بدعا ہیں کہ وہ قرآن مجید کے آداب بجا لانے، اسے سمجھنے اور اس پرعمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔(آمین)
ابومحمد حافظ عبد الستار الحماد
(مدیر مرکز الدراسات الاسلامیۃ ،میاں چنوں )
[۸]
قرآن مجید کی سات قراء اتیں اور قراءاتِ عشرہ
متواترحدیث سے ثابت ہے کہ قرآن مجید سات قراء توں پر نازل ہوا ہے۔ تفصیل کے لیے مطولات(بڑی کتابوں )کی طرف رجوع فرمائیں مثلاً دیکھئے بدر الدین الزرکشی رحمہ اللہ (متوفی ۷۹۴ھ)کی البرھان في علوم القرآن وغیرہ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک آدمی کو ایک آیت پڑھتے ہوئے سنا جسے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسرے طریقے سے سنا تھا تو میں اسے پکڑے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((کِلَاکُمَا مُحْسِنٌ)) ’’تم دونوں نے اچھا کیاہے یعنی تم دونوں صحیح ہو۔‘‘ [صحیح البخاری:۲۴۱۰، ۳۴۷۶،۵۰۶۲]
یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
مسند أحمد [۱/۴۵۶ ح۴۳۶۴، ۱/۳۹۳ ح۳۷۲۴، مسند الشاشي [۷۷۰،۷۷۱]